یونانی وزیر خزانہ کی طرف سے یورو ریفرنڈم کی مخالفت
3 نومبر 2011یونانی وزیرخزانہ وینیزلوس نے کَن میں گروپ ٹوئنٹی سربراہی کانفرنس کے سلسلے میں ہونے والی میٹنگ میں شرکت کے بعد وطن واپسی پر ریفرنڈم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا: ’’یورو زون میں یونان کی شمولیت یونانی عوام کی ایک تاریخی فتح ہے، اور اس پر کوئی سوالیہ نشان نہیں لگنا چاہیے... اس پر فیصلے کو کسی ریفرنڈم کا تابع نہیں بنایا جانا چاہیے۔‘‘
اس تازہ پیشرفت کے بعد یونانی وزیراعظم کے خلاف، جنہیں پہلے ہی اندرونی طور پر بڑھتی ہوئی مخالفت کا سامنا ہے، تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات مزید بڑھ گئے ہیں۔ اس تحریک پر ووٹنگ جمعہ چار نومبر کو ہونا طے ہے۔
جارج پاپاندریو نے ان حالات میں آج جمعرات کو ایتھنز میں اپنی کابینہ کی ایک ہنگامی میٹنگ بھی طلب کر لی۔ وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق یہ میٹنگ آج دوپہر کے وقت ہو گی۔
دوسری طرف یورو زون کے رہنماؤں کی طرف سے جارج پاپاندریو کو ریفرنڈم کے اعلان کی وضاحت کے لیے فرانس کے شہر کَن طلب کر لیا گیا ہے، جہاں جی ٹوئنٹی گروپ کے سربراہان کی کانفرنس کا آج تین نومبر سے آغاز ہو رہا ہے۔
انتہائی مشکلات میں گھرے یونانی وزیر اعظم اس بات سے متفق ہیں کہ یورو زون میں یونان کا مستقبل خطرے میں ہے۔ ان کی حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ اس حوالے سے چار دسمبر کو ایک ریفرنڈم کرایا جانا چاہیے۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت تو نہیں کی تھی کہ اس ریفرنڈم میں پوچھے جانے والے سوال کے الفاظ کیا ہوں گے تاہم انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ ریفرنڈم اس بات سے متعلق ہے کہ کیا ہم یورو زون میں رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ پاپاندریو نے اس بات کی بھی امید ظاہر کی کہ یونانی عوام دراصل یورو زون میں رہنے کے حامی ہیں۔
یورپی رہنما یونانی وزیر اعظم جارج پاپاندریو کو خبر دار کر چکے ہیں کہ اگر امدادی پیکج کے حوالے سے یونان ان شرائط پر رضامند نہ ہوا جن پر یورو زون میں شامل دیگر ممالک کی طرف سے گزشتہ ہفتے اتفاق کیا جا چکا ہے، تو یونان کو مزید کوئی رقم نہیں دی جائے گی۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے امید ظاہر کی ہے کہ یونان یورو زون میں شامل رہے گا تاہم انہوں نے ایتھنز حکومت کو خبردار کیا کہ اسے اس حوالے سے کھُل کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سارکوزی کے مطابق : ’’یونان کو طے کرنا ہے کہ اسے ہمارے ساتھ شامل رہنا ہے یا نہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یونان ہمارے ساتھ رہے گا، تاہم اس کے لیے قوانین کی پابندی ضروری ہے۔‘‘
رپورٹ: افسر اعوان / خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک