1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بائیڈن پوٹن بات چیت: دھمکیاں اور بہتری کی امید کا اظہار

31 دسمبر 2021

بائیڈن نے پوٹن کو خبردار کیا ہے کہ اگر روس نے یوکرائن کے خلاف مزید فوجی کارروائی کی تو ماسکو پر نئی پابندیاں عائد بھی کی جا سکتی ہیں۔ پوٹن نے جواباً کہا کہ ایسا کوئی بھی قدم باہمی تعلقات کو ختم کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4517M
Bildkombo Biden und Putin
تصویر: Jim WATSON/Grigory DUKOR/AFP

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) کے مطابق دونوں رہنماؤں نے جمعرات کی رات تقریباً ایک گھنٹے طویل بات چیت کی۔ یوکرائن تنازعے پر 10 جنوری کو جنیوا میں دونوں ملکوں کے عہدیداران کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے قبل صدر بائیڈن اور صدر پوٹن کے درمیان رواں ماہ ٹیلی فون پر اس نوعیت کی یہ دوسری با ت چیت تھی۔

اے پی کے مطابق دونوں صدور نے یوکرائن کے تنازعے پر کھل کر بات چیت کی۔ یوکرائن کی سرحد پر روسی افواج کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے یہ بحران شدہد ہوتا جا رہا ہے۔ کریملن نے سرحدی سکیورٹی کی ضمانت کے حوالے سے اپنا موقف سخت کر دیا ہے اور اپنے مطالبات پر زور دینے کے لیے ہائپر سونک میزائلوں کے تجربات بھی کیے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق صدر بائیڈن اور پوٹن نے کھل کر بات چیت کی اور اپنے اختلافات کو چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

US-Präsident Joe Biden spricht mit Russlands Präsident Wladimir Putin
تصویر: Adam Schultz/White House/REUTERS

تنازعے کے حل کے لیے پرامید

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جین ساکی نے ایک بیان میں کہا کہ صدر بائیڈن نے واضح کر دیا ہے کہ اگر روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو امریکا اور اس کے اتحادی اور شراکت دار ماسکو کو فیصلہ کن جواب دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا،"صدر بائیڈن نے اس بات کا اعاد ہ کیا کہ ان مذاکرات میں خاطر خواہ پیش رفت صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب یہ بات چیت کشیدہ کے بجائے پرامن ماحول میں ہو۔" دونوں ملکوں کے اعلی حکام یوکرائن کے تنازعے پر دس جنوری کو جنیوا میں بات چیت کرنے والے ہیں۔

ادھر کریملن میں خارجہ پالیسی کے مشیر یوری اوشاکوف نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران یوکرائن پر حملے کے ردعمل کے طور پر اقتصادی پابندیوں کی واشنگٹن کی بار بار دھمکیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا،"یہ ایک سنگین غلطی ہو گی۔ ہمیں امید ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔"

اوشاکوف نے مزید کہا کہ روس جنوری میں جنیوا میں ہونے والی بات چیت کے ٹھوس 'نتیجے ' کے لیے پر امید ہے جب کہ وائٹ ہاؤس نے کہا کہ وہ بھی چاہتا ہے کہ ماسکو یوکرائن کی سرحد پر روس کی بڑی فوجی موجودگی سے پیدا ہونے والی کشیدگی میں کمی کے لیے کارروائی کرے۔

دونوں رہنماؤں کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد جاری ایک بیان میں کریملن نے زور دیا کہ صدر بائیڈن نے پوٹن کو بتایا کہ یوکرائن میں امریکی ہتھیاروں کو نصب نہیں کیا جائے گا۔ تاہم وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ بائیڈن نے صرف موجودہ پالیسی کی توثیق کی ہے۔

ایک امریکی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا،"امریکا یوکرائن کو دفاعی سکیورٹی کے حوالے سے امداد فراہم کر رہا ہے اور جارحانہ حملہ کرنے والے ہتھیار نہیں دے رہا ہے۔"

Russlands Präsident Wladimir Putin
تصویر: Mikhail Metzel/SPUTNIK/AFP

نیٹو کو وسعت دینے کی خواہش نہیں

اے پی کے مطابق وائٹ ہاؤس کے حکام نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کئی ایسے شعبے ہیں، جہاں دونوں فریق بامعنی طور پر پیش رفت کر سکتے ہیں تاہم ایسے اختلافات بھی موجود ہیں جنہیں حل کرنا ممکن نہیں۔ مثلاً روس نے واضح کیا کہ وہ ایک تحریری معاہدہ چاہتا ہے کہ یوکرائن کو کبھی بھی نیٹو میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی نیٹو کے اتحادی ممالک وہاں اپنے ہتھیار نصب کریں گے۔بائیڈن انتظامیہ نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔

جنیوا میں 10 جنوری کو ہونے والی بات چیت کے دوران روس کے مطالبات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں کہ بحران کو کم کرنے کے بدلے میں بائیڈن پوٹن کو کیا پیشکش کرنے کو تیار ہوں گے۔

دریں اثنا نیٹو کے اہم ارکان نے واضح کیا کہ مستقبل قریب میں اتحاد کو وسعت دینے کی کوئی خواہش نہیں کیونکہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں یہ روس کو سابقہ سوویت ریاست پر حملہ کرنے کا بہانہ فراہم کرے گا۔

خیال رہے کہ جمعرات کو ٹیلی فونک بات چیت سے قبل چھٹیوں پر اپنے پیغام میں پوٹن نے بائیڈن سے کہا تھا کہ وہ اس بات پر 'مطمئن 'ہیں کہ دونوں 'باہمی احترام اور ایک دوسرے کے قومی مفاد کو مدنظر رکھ کر' ایک ساتھ کام کر سکیں گے۔

ج ا/   ع ا  (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)

یوکرائن اور روس کے درمیان مسلح تصادم کے خدشات

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں