ابتدائی حیات کی تلاش کی جانب اٹھتا قدم
20 دسمبر 2010تحقیقی جریدے ’’نیچر‘‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق تقریباً تین ارب سال قبل زمین پر ڈرامائی طور پر زندگی کے آثار اس وقت نمودار ہونا شروع ہوئے تھے جب قدیمی حیات نے سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرنے کےاسباب سے آگہی حاصل کی تھی۔
تحقیقی رپورٹ کے مطابق میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ برائے ٹیکنالوجی (MIT) کے سائنسدانوں اور ریاضی دانوں نے اس نتیجے کو اخذ کرنے کے لئے ایک genomic fossil کا میتھمیٹیکل ماڈل تشکیل دینے کے بعد ہی معلوم کیا کہ ابتداء میں زمین پر حیات کا عمل کس طرح ممکن ہوا تھا۔ اس ماڈل میں ایک ہزار کلیدی جین کے نمونوں کو سمویا گیا تھا۔ اس ابتدائی عمل کے بعد مختلف حسابی کلیوں سے اندازہ لگایا گیا کہ زمین پر کسی بھی قسم کی زندگی کی افزائش تین ارب سال قبل کے لگ بھگ شروع ہوئی تھی۔ ان تین ارب سالوں کے درمیان ستائیس فیصد موجود مختلف النوع حیات نے مختلف ادوار میں فروغ پایا۔
امریکہ کی عالمی شہرت کے ریسرچ ادارے ایم آئی ٹی کے محققین میں ایرک الم اور لارنس ڈیوڈ شامل تھے۔ ان دونوں ریسرچر کا اس نکتے پر اتفاق ہے کہ تین ارب سال حیات کی ابتداء میں حیاتیاتی اور کیمیاوی ری ایکشن نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس اہم حیاتیاتی عمل کے دوران الیکٹران کی حرکت غیر معمولی نوعیت کی تھی۔ ان الیکڑان نے زمین پر اگنے والی نوزائیدہ حیات کے خلیوں کی جھلی کے ساتھ جو عمل کیا تو اس کے نتیجے میں توانائی کی ایک طرح سے کاشت کا ابتدائی عمل مکمل کیا گیا۔ اس پراسس میں سورج کی شعاؤں کے ملنے سے فوٹو سنتھسس کے عمل کے دوران اکسیجن سانس لینے میں مددگار رہی۔
دونوں محققین کا مزید رپورٹ میں لکھنا ہے کہ یہ ابتدائی عمل تقریباً پانچ سو ملین سالوں تک جاری رہا اور اس کے بعد زمین پر گریٹ اکسیڈیشن کا انقلاب برپا ہوا اور زمین کا سارا ماحول اکسیجن گیس سے بھر گیا۔ محققین اس مفروضے سے اتفاق کرتے ہیں کہ زمین پر مختلف نسلوں کے جینز کے اندر تغیر وتبدل میں گریٹ اکسیڈیشن ایونٹ نے عمل انگیز کردار ادا کیا تھا۔ اس انقلابی سائنسی عمل کے دوران غیر حیاتی اور نمیاتی مادوں کی جگہ پر ایک متحرک اور تیز رفتار ایروبک فارمز نےاپنی جگہ کو مستحکم کیا۔
ایم آئی ٹی کے محققین ایرک الم اور لارنس ڈیوڈ کے مطابق اس دریافت کے عمل سے تاریخ کے گم شدہ سائنسی پرتوں اور مخفی عوامل کو افشاء کرنے میں معاونت حاصل ہو گی۔ ریسرچر کو یقین ہے کہ اس دریافت کے سفر میں ابتدائی حیات کے ارتقا کی منزلوں کے سراغ کی جانکاری سے عام انسان باخبر ہو سکیں گے۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: عابد حسین