اسامہ کی مدد کس نے کی، پاکستان پتہ چلائے: اوباما
9 مئی 2011امريکی صدر اوباما نے کہا کہ بن لادن ايک مدد گار نيٹ ورک کے بغير برسوں تک ايبٹ آباد ميں چھپے نہيں رہ سکتے تھے، جہاں بہت سی فوجی تنصيبات ہيں۔
امريکی صدر باراک اوباما کے خيال ميں يہ بالکل واضح بات ہے کہ دہشت گرد تنظيم القاعدہ کے سربراہ کو پاکستان ميں مدد گاروں کے کسی نيٹ ورک کی حمايت حاصل تھی ۔ ليکن اُنہوں نے يہ بھی کہا کہ امريکی حکومت کو ابھی تک يہ علم نہيں ہے کہ اس کے پيچھے کس کا ہاتھ ہے۔انہوں نے کہا:’’ہمارا خيال ہے کہ پاکستان ميں بن لادن کا کوئی مددگار نيٹ ورک ضرور تھا، ليکن ہميں يہ معلوم نہيں کہ يہ نيٹ ورک کيا تھا اور اسے کون چلا رہا تھا۔‘‘
سی بی ايس کو ديا گيا اوباما کا يہ انٹرويو بن لادن کی ہلاکت پر منتج ہونے والے کمانڈو حملے کے بعد اُن کا پہلا سب سے لمبا انٹرويو تھا۔ اوباما نے کہا کہ يہ 40 منٹ، جو اس کمانڈو آپريشن ميں لگے، اُن کی زندگی کے طويل ترين 40 منٹ تھے۔
امريکی صدر نے اس انٹرويو ميں پاکستانی حکومت سے يہ مطالبہ کيا کہ وہ اس بات کا کھوج لگائے کہ بن لادن کو کس نے مدد دی۔ اوباما کے مشير برائے سلامتی امور ٹام ڈونی لون نے سی بی ايس سے کہا کہ اس کا کوئی ثبوت موجود نہيں ہے کہ پاکستانی حکومت، فوج يا خفيہ سروس کو اس بات کا علم تھا کہ بن لادن دارالحکومت سے کچھ ہی فاصلے پر برسوں سے چھپے ہوئے تھے۔ ڈونی لون نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کيا کہ وہ بن لادن کی رہائش گاہ سے حاصل ہونے والی معلومات سے امريکہ کو بھی آگاہ کرے۔ اُنہوں نے بن لادن کی بيويوں تک رسائی کی درخواست بھی کی جو اس وقت پاکستان کی تحويل ميں ہيں۔
امريکی حکومت جہاں اس سلسلے ميں پاکستانی حکومت پر دباؤ ميں اضافہ کررہی ہے، وہاں وہ اب تک پاکستان کے ساتھ اشتراک عمل کی تعريف بھی کر رہی ہے۔ صدر اوباما نے سی بی ايس کو بتايا کہ ابھی تک دنيا ميں کہيں بھی اتنے زيادہ دہشت گردوں کو ہلاک نہيں کيا گيا ہے جتنے کہ پاکستان ميں ہلاک کيے گئے ہيں اور يہ پاکستانی حکام کے تعاون کے بغير ممکن نہيں تھا۔
رپورٹ: نکول والڈ مارک، واشنگٹن/ شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک