اسمبلی میں جاگیر داروں کی اکثریت: کیا یہ پالیسی کا حصہ ہے؟
25 فروری 2024نو منتخب قومی اسمبلی میں بھی یہی رجحان دکھائی ديتا ہے۔ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں زمینداروں کی ایک بڑی تعداد نے نشستيں جيتی ہیں۔ نو منتخب قومی اسمبلی میں 112 اراکین ایسے ہیں، جن کا تعلق زراعت اور اس سے منسلک شعبوں سے ہے جب کہ 83 افراد کا پس منظر کاروباری ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسمبلی میں ان شعبوں سے وابستہ افراد کی اکثریت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان کے سیاسی افق پر آج بھی جاگیر دار، زمیندار اور دیہی علاقوں سے وابستہ افراد چھائے ہوئے ہیں۔
زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر مزید ٹیکس نہ لگانے کا اعلان، فائدہ کس کو پہنچے گا؟
پاکستان کا نئے مالی سال کے لیے بجٹ، تعریف بھی اور تنقید بھی
گو کہ اسمبلی میں کچھ پروفیشنلز بھی منتخب ہو کر آئے ہیں لیکن غریب طبقات کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ 16 اراکین اسمبلی کا تعلق وکالت سے ہے، سات کا طب کے شعبے سے، چار کا انجینيئرنگ سے، چار کا دینی علوم سے، تین مزارات کے سجادہ نشین ہیں جبکہ تین کا تعلق درس و تدریس سے ہے۔ بقیہ تيرہ اراکين اسمبلی کا تعلق ديگر شعبوں سے ہے۔
تھانہ کچہری کی سیاست
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار سہیل وڑائج کا کہنا ہے کہ سیاست دان روایتی خاندانوں کو ترجیح دیتے ہیں، اس لیے بڑی تعداد میں ان خاندانوں سے وابستہ افراد اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''اس کے علاوہ جاگیر دار تھانہ اور کچہری کی سیاست بھی کرتے ہیں جو پروفیشنل افراد نہیں کر سکتے۔‘‘
برادری نظام
سہیل وڑائچ کے مطابق دیہاتوں میں برادری کا نظام بھی ایک بہت بڑا عنصر ہے۔ انہوں نے کہا، ''برادری کا نظام جاگیر داروں کو مضبوط کرتا ہے۔ پنجاب کے مختلف علاقوں میں مختلف برادریوں کے لوگ آباد ہیں اور وہ برادری کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں۔ تاہم پاکستان تحريک انصاف نے کچھ پروفیشنلز کو متعارف کرایا ہے۔‘‘
حلقے کی سیاست
کراچی یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نمائندگی فنکشنل بنیادوں پر نہیں ہے۔ اگر فنکشنل بنیادوں پر نمائندگی ہوتی تو پھر مختلف پیشے سے وابستہ افراد کو پارلیمنٹ میں نشستیں بھرنے کا موقع ملتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''پاکستان میں سیاست حلقے کے حساب سے ہوتی ہے اور یہ برطانوی دور سے چلی آ رہی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس لیے زرعی علاقوں کی اشرافیہ بڑے پیمانے پر منتخب ہو کر آتی ہے۔‘‘
’جاگیر داری کمزور ہونے کے بجائے طاقتور ہوئی ہے‘
ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے نو منتخب رکن قومی اسمبلی معین عامر پیرزادہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جاگیر داری نظام وقت گزرنے کے ساتھ کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''کیونکہ پاکستان میں جمہوریت میں تسلسل نہیں رہا، اس لیے جاگیر دار طبقہ مزید مضبوط ہوا۔ خصوصاً سندھ میں جاگیر داری کے خلاف اٹھنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘
مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے نون لیگ کے رہنما نصیر ہنجرہ کا کہنا ہے کہ کیونکہ زراعت سے تعلق رکھنے والے افراد برطانوی دور سے سیاست میں عملی طور پر سرگرم ہیں، اس لیے ان کی تعداد زیادہ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ان کے خاندانوں کو لوگ جانتے ہیں۔ اس لیے انہیں ووٹ ملتے ہیں۔‘‘
سیاسی جماعتوں کا موقف
سیاسی جماعتيں ايک طرف کہتی ہيں کہ ان کی جانب سے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ٹکٹ دیے جاتے ہیں۔ تاہم تقريباً تمام ہی جماعتیں يہ بھی مانتی ہيں کہ اکثريتی ٹکٹ زراعت اور اس سے منسلک شعبوں سے وابستہ افراد کو ديے جاتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی سابق رکن قومی اسمبلی کنول شوزب کا کہنا ہے کہ پارٹی نے جن لوگوں کو ٹکٹ دیے، اس میں علاقوں کو پیش نظر رکھا گیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''وسطی پنجاب سے ہم نے زیادہ تر کاروباری افراد کو ٹکٹ دیے جبکہ جنوبی پنجاب سے کچھ کاروباری ہیں اور بقیہ زراعت سے وابستہ ہیں۔‘‘
جیل یا سیاستدانوں کو 'کُندن' بنانے والی فیکٹری
جمہوریت میں ’عسکری نرسری کے سياسی پھول پودے‘
پاکستان تحریک انصاف کے ایک اور رہنما فیصل شیر جان کا کہنا ہے کہ پارٹی نے متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے بہت سارے لوگوں کو ٹکٹ دیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''بد قسمتی سے وہ جیتنے کے باوجود بھی نہیں جیت سکے۔ ہم نے نہ صرف متوسط طبقات سے لوگوں کو بڑے پیمانے پر ٹکٹ دیے بلکہ خواتین کی بھی بڑی تعداد کو ہم نے ٹکٹ دیے ہیں۔‘‘
’ایم کیو ایم نے سب سے پروفيشنلز کو ٹکٹ دیے‘
معین عامر پیرزادہ کا دعویٰ ہے کہ ایم کے ایم نے پروفیشنلز یا چھوٹے کاروباری افراد کو سب سے زیادہ ٹکٹس دیے۔ ''ڈاکٹر فاروق ستار اور خالد مقبول پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ جاوید حنیف اور ارشد وہرا انجینیئرز ہیں۔ مصطفی کمال نے ایم بی اے مارکیٹنگ کیا ہے۔ حافظ الدین اور حسان صابر وکالت سے وابستہ ہیں جبکہ خواجہ اظہار، سید وسیم اور فرحان چشتی کا تعلق چھوٹے اور درميانے درجے کے کاروبار سے ہے۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی نے کارکنان اور عہدے داروں کو ٹکٹ دیے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''اس کے علاوہ ہم نے روایتی سیاسی خاندانوں کو بھی ٹکٹ دیے ہیں لیکن ترجیح ان کو دی گئی ہے جنہوں نے ماضی میں انتخابات لڑے اور جیتے بھی۔‘‘
کیا اس رجحان کو ختم کیا جا سکتا ہے؟
اس سوال پر ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان میں بہت موثر زرعی اصلاحات نہیں ہوتیں، اس وقت تک جاگیر داروں کے اثر رسوخ کو کم نہيں کيا جا سکتا۔ ''اس وقت تک پیشہ ورانہ طبقات کے لیے اسمبلیوں میں جگہ پیدا نہیں ہو سکے گی۔‘‘ معین عامر پیرزادہ کا کہنا ہے کہ یا تو مزدور طبقات کے لیے اسمبلی میں نشستیں مختص کی جائیں یا پھر سیاسی جماعتيں نشستوں پر ان کو ترجیح دیں۔‘‘
زمینداروں کا موقف
زمینداروں کا کہنا ہے کہ حکومتی پالیسیاں عموماً سرمایہ داروں کے مفاد ميں ہوتی ہیں۔ پاک پتن سے تعلق رکھنے والے زمیندار عامر حیات بھنڈرا کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ اسمبلی زمینداروں سے بھری ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا، ''اگر پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے، تو یہ سرمایہ داروں کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں۔ زراعت والے تو مشکلات کا شکار ہیں۔‘‘