افغانستان میں عدم استحکام کا ذمہ دار پاکستان ہے، افغانستان کا الزام
1 جولائی 2011افغانستان کے مشرقی صوبے خوست میں پاکستانی سرحد کے قریب بوری تانہ نامی علاقے میں موجود آخری افغان امریکی چیک پوسٹ پر خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ولی شاہ کا کہنا تھا: ’’جب پاکستان کہتا ہےکہ وہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے گا تو وہ محض دکھاوا ہوتا ہے۔‘‘
خوست کے گورنر ولی شاہ کا مزید کہنا تھا: ’’طالبان کو آئی ایس آئی نے تربیت دی ہے اور یہ افغانستان میں حملے کرنے کے لیے آتے ہیں۔ پاکستان نہیں چاہتا کہ یہاں تشدد ختم ہو، وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان ترقی کرے۔‘‘
پاکستان اور افغانستان برسہا برس سے مذہبی شدت پسندوں کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے رہے ہیں، جو دونوں ممالک کی سلامتی کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
نائن الیون کے بعد امریکہ کی طرف سے طالبان کے خلاف جنگ میں شرکت سے قبل تک پاکستان کے طالبان کے ساتھ گہرے تعلقات تھے۔ تاہم دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان کے خلاف یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ وہ دوست اور دشمن دونوں کا کردار ادا کر رہا ہے، بلکہ بعض اوقات تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں شدت پسندوں کی عملی مدد کر رہا ہے۔
تاہم پاکستانی حکام کی طرف سے ایسے الزامات کی تردید کی جاتی ہے۔ پاکستانی حکومت کا مؤقف ہے کہ اس کے 140 ہزار فوجی شمال مغربی حصے میں تعینات ہیں اور مختلف فوجی آپریشن کرکے طالبان عسکریت پسندوں کا یا تو خاتمہ کردیا گیا ہے یا پھر ان کو بہت حد تک بے دست و پا کر دیا گیا ہے۔ تاہم افغان صدر حامد کرزئی کے مطابق پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں کی پناہ گاہیں دراصل تمام مسائل کی جڑ ہیں۔ اب جب کہ امریکی صدر باراک اوباما نے 2012ء کے موسم گرما تک افغانستان سے اپنی 33 ہزار فوج واپس بلانے کا اعلان کر دیا ہے دونوں ممالک کے درمیان یہ معاملہ ابھی تک وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے۔
حال ہی میں کابل کی طرف سے پاکستان پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس کی فوج نے ایک افغان علاقے میں درجنوں راکٹ فائر کیے ہیں،جس کے بعد دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں کشیدگی دیکھنے میں آئی۔ افغان حکومت کے مطابق پاکستان کے ایسے اقدامات تعاون اور اعتماد سازی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: شامل شمس