القادر ٹرسٹ کیس کے دیگر کرداروں کی باری کب آئے گی؟
10 مئی 2023پاکستان میں کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے القادر ٹرسٹ کیس میں ملک کے معروف پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض، کو بھی شامل تفتیش کرنا چاہیے تاکہ عمران خان اور ملک ریاض میں ہونے والی کسی مبینہ ڈیل کی پوری تفصیلات سامنے آ سکیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے متعدد تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ القادر ٹرسٹ اسکینڈل کے تمام کرداروں کو نظر انداز کرکے صرف عمران خان کے خلاف کارروائی سے جانب داری اور سیاسی انتقام کا تاثر ابھرے گا اس لیے وزیر اعظم عمران خان کے سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر سمیت تمام متعلقہ افراد کو قانون کے دائرے میں لایا جانا چاہیے۔
قطر اپنی پالیسیاں بدلے، سعودی عرب
ملک ریاض پراپرٹی کے بعد اب میڈیا انڈسٹری میں
یاد رہے سابق وزیراعظم عمران خان کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے القادر ٹرسٹ کیس میں حراست میں لے رکھا ہے۔ تفصیلات کے مطابق القادر ٹرسٹ کیس اس ساڑھے چار سو کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔
پاکستان کی موجودہ اتحادی حکومت سے وابستہ شخصیات کا یہ موقف رہا ہے کہ یہ معاملہ عطیے کا نہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے اور حکومت کا کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کی اربوں روپے کی جو رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی تھی وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک ریاض کے ذمے واجب الادا رقم میں ایڈجسٹ کر دی گئی تھی۔ ان کے مطابق اس عمل کے عوض بحریہ ٹاؤن نےمارچ 2021 میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی عطیہ کی اور یہ معاہدہ بحریہ ٹاؤن اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا تھا۔ جس ٹرسٹ کو یہ زمین دی گئی تھی اس کے ٹرسٹیز میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے علاوہ تحریکِ انصاف کے رہنما زلفی بخاری اور بابر اعوان بھی شامل تھے ۔ لیکن بعد میں یہ دونوں رہنما اس ٹرسٹ سے الگ ہو گئے تھے۔
پاکستان میں احتساب کا سب سے بڑا ادارہ قومی احتساب بیورو آج کل سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے نام پر سینکڑوں کنال اراضی سے متعلق باقاعدہ تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔اگرچہ نیب حکام کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں عمران خان، بشریٰ بی بی بیرسٹر شہزاد اکبر اور ریئل سٹیٹ ڈیویلپر کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہیں لیکن تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جتنی پھرتی کے ساتھ عممران خان کے خلاف کارروائی ہوتی دکھائی دے رہی ہے ویسی صورتحال ملک ریاض اور دیگر کے معاملے میں نظر نہیں آ رہی۔
پاکستان کے وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ کہہ چکے ہیں کہ جس پراپرٹی ٹائیکون نے القادر ٹرسٹ کے لیے زمین دی تو ان کے ہی اکاؤنٹ میں 60 ارب بھیج کر قومی خزانے کو یہ ٹیکا لگایا گیا۔ وزیرداخلہ نے کہا تھا کہ وفاقی کابینہ کو عمران خان نے اندھیرے میں رکھا اور صرف کاغذ لہرا کر اس فیصلے کی منظوری لے لی گئی۔ ان کے مطابق اس وقت کی کابینہ بھی ایک طرح سے ذمہ دار ہے جس سے پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ پوچھ گچھ کون کرے گا۔ نیب کے امور پر نگاہ رکھنے والے ایک تجزیہ کار برگیڈئر فارووق حمید نے ڈی ڈبلیو کو کو بتایا کہ انہیں نہیں لگتا کہ القادر ٹرسٹ اسکینڈل کے بقیہ کرداروں کے خلاف کوئی موثر کارروائی ہو سکے گی۔ خاص طور پر ملک ریاض کے خلاف کارروائی تو بہت ہی مشکل ہے کیونکہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں اور اشرافیہ میں ان کا کافی اثر رسوخ ہے وہ میڈیا کو اشتہار دیتے ہیں اس لیے ان کے خلاف مین سٹریم میڈیا بھی سوال اٹھانے سے عموما گریز کرتا ہے۔ '' یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میں کئی مرتبہ جب ٹی وی چینلز پر جاتا ہوں تو وہاں کبھی ملک ریاض کے بارے میں بات کرنی پڑے تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ ان کا نام نہیں لینا اس سے اشتہارات متاثر ہو سکتے ہیں۔ ‘‘
’’بعض لوگ انہیں کنگ میکر بھی سمجھتے رہے ہیں مجھے یاد ہے کہ جب پیپلز پارٹی کے دور میں ڈاکٹر طاہرالقادری لانگ مارچ نکانے جا رہے تھے تو ان کو منانے کے لیے ملک ریاض ہی ڈاکٹر طاہرالقادری کے پاس آئے تھے۔‘‘
فارووق حمید کے مطابق وہ اربوں روپے جو ملک ریاض کے واجبات کی ادائیگی میں استعمال کیے گیے وہ قوم کا پیسہ تھا اور اسے ملکی خزانے میں جانا چاہیے تھا۔ ''میرے خیال میں ملک ریاض کی ملک میں جدید ہاوسنگ کے فروغ، سیلاب زدگان کی مدد اور بحریہ دسترخوان جیسے منصوبوں میں بڑی خدمات ہیں لیکن القادر ٹرسٹ اسکینڈل ایک بری مثال ہے اسے درست ہونا چاہیے۔‘‘
اگرچہ نیب کے حکام نے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک ریاض کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس میں کافی ٹھوس مواد موجود ہے لیکن اس کے باوجود تجزیہ کار رضوان رضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ القادر ٹرسٹ کیس میں ملک ریاض کو قانون کے کٹہرے میں لانا آ سان نہیں ہے۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما عمل ہوگا۔ پاکستان نے برطانیہ کی عدالت میں جو اپنا بیان جمع کروایا ہے اسے واپس لے کر از سر نو نئی تفصیلات کے ساتھ کیس کو آگے بڑھانا پڑے گا۔ملک ریاض آج کل بیرون ملک مقیم ہیں۔
رضوان رضی بتاتے ہیں کہ ایک ایسا شخص جس کے خلاف ملک کے ٹاپ ٹین ٹی وی چینلز میں خبر تک نہ آ سکے اس کو کون ہاتھ ڈال سکے گا۔ وہ اپنے ہاؤسنگ پراجیکٹس کے لیے بحریہ کا نام استعمال کرتے رہے اس پر ان کے خلاف عدالت کا فیصلہ بھی آیا لیکن وہ حکم امتناعی لے کر کام کرتے رہے۔
سینئر صحافی میاں غفار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ القادر ٹرسٹ کے نام پر صرف عمران خان کے خلاف کارروائی مناسب نہیں۔ ایمانداری کا تقاضا ہے کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے تمام کرداروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ میاں غفار کو یقین ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں انسانوں کی قیمت لگانا قدرے آسان ہے اس لیے ملک ریاض کے خلاف کارروائی ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ القادر ٹرسٹ کے علاوہ بھی کئی اور ایسے سوال ہیں، جن کے بارے میں ملک ریاض کو جواب دینے ہیں۔ ان کے بقول ملک ریاض اپنے ہاؤسنگ پراجیکٹس کے لیے گاؤں کے گاؤں خریدتے رہے لیکن کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ ان دیہاتوں میں سڑکوں اور دیگر سرکاری املاک کی صورت میں موجود اراضی کہاں گئی۔ ڈی ڈبلیو کے نمائندے نے ملک ریاض کے موقف کے لیے ان کے موبائل فون پر متعدد کالز کرکے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگران سے رابطہ ممکن نہ ہوسکا۔