ایردوآن کا میرکل پر ’ذاتی حملہ‘، ترک جرمن تنازعہ شدید تر
19 مارچ 2017ترکی کے شہر استنبول سے اتوار انیس مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق صدر رجب طیب ایردوآن نے آج جرمن سربراہ حکومت پر ذاتی نوعیت کا الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انگیلا میرکل ’نازی اقدامات‘ کر رہی ہیں۔
صدر ایردوآن نے ٹیلی وژن سے براہ راست نشر کردہ اپنی ایک تقریر میں آج جرمن چانسلر میرکل کے حوالے سے کہا، ’’اس وقت تم نازی اقدامات کی مرتکب ہو رہی ہو۔‘‘ اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ترک سربراہ مملکت کا یہ بیان دونوں ملکوں کے مابین پہلے ہی سے بہت کشیدہ تعلقات میں مزید خرابی کی وجہ اس لیے بنا کہ روایتی سفارتی اور سیاسی لب و لہجے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صدر ایردوآن نے چانسلر میرکل کو مخاطب کرنے کے لیے جو لفظ استعمال کیا، وہ رسمی طرز تخاطب والا ’آپ‘ نہیں بلکہ ترک زبان میں ’تم‘ یا ’تو‘ کے لیے استعمال ہونے والا لفظ تھا۔
ترک سیاستدانوں کا جلسوں سے خطاب: پابندی ممکن، جرمن دھمکی
جرمنی فوجی بغاوت کے منصوبہ سازوں کی حمایت کر رہا ہے، ترکی
رجب طیب ایردوآن نے اپنے اس خطاب میں یہ سوال بھی کیا کہ مبینہ طور پر جرمن چانسلر کی طرف سے یہ اقدامات کن کے خلاف کیے جا رہے ہیں؟ پھر انہوں نے خود ہی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا، ’’جرمنی میں میرے ترک شہری بھائیوں کے خلاف اور میرے برادر ترک وزراء کے خلاف۔‘‘
اے ایف پی کے مطابق ترک صدر نے اپنے جن ’برادر ترک شہریوں اور برادر وزراء‘ کا ذکر کیا، وہ ایسے ترک سیاسی کارکن یا سیاست دان تھے، جو اس لیے جرمنی گئے تھے کہ ترکی میں اگلے مہینے ہونے والے آئینی ریفرنڈم کے لیے ترک باشندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر سکیں۔
اس ریفرنڈم میں ترک ووٹروں سے ملک میں صدارتی جمہوری نظام رائج کرنے سے متعلق رائے دہی کے لیے کہا جائے گا۔ اگر یہ ریفرنڈم کامیاب رہا تو ترکی موجودہ پارلیمانی جمہوری نظام چھوڑ کر صدارتی جمہوری نظام اپنا لے گا اور یوں موجودہ صدر ایردوآن کے اختیارات میں بھی بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔
معروف ترک خاتون ناول نگار کے بیرون ملک سفر پر پابندی برقرار
مغرب نے اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا، ایردوآن
’دہشت گردوں کا ایجنٹ‘ ترک نژاد جرمن صحافی
استنبول ہی سے موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اپنے اسی خطاب میں ترکی میں زیر حراست ترک نژاد جرمن صحافی اور جرمن جریدے ’دی وَیلٹ‘ کے نامہ نگار ڈینیز یُوچَیل کے بارے میں صدر ایردوآن نے کہا، ’’خدا کا شکر ہے کہ اسے گرفتار کیا جا چکا ہے۔‘‘
ترک حکومت نے یُوچَیل کو ’دہشت گردوں کا ایجنٹ‘ ہونے کا الزام لگا کر جیل میں رکھا ہوا ہے جبکہ برلن حکومت کئی بار مطالبہ کر چکی ہے کہ ترکی اس دوہری شہریت رکھنے والے جرمن صحافی کو رہا کرے۔ اس بارے میں ترک صدر کا تازہ ترین بیان بھی انقرہ کی برلن کے ساتھ کشیدگی میں مزید اضافے کا وجہ بنا ہے۔
رجب طیب ایردوآن کے مطابق فروری میں گرفتار کیے جانے والے صحافی یُوچَیل پر، جن کے خلاف ایک دہشت گرد تنظیم کی حمایت اور لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے الزامات ہیں، ترکی کے غیر جانبدار عدالتی نظام کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
ترک ’بلیک میل کے باعث سرخ لکیر‘ کھینچنا پڑی، ڈچ وزیر اعظم
ہالینڈ سے ترک وزیر کی بےدخلی کے بعد مظاہرے، کشیدگی میں اضافہ
ہالینڈ نے ترک وزیر خارجہ کے طیارے کو لینڈنگ سے روک دیا
سزائے موت کی بحالی
ترک صدر ایردوآن نے ابھی کل ہفتے کے روز ہی کہا تھا کہ اپریل میں آئینی ریفرنڈم کے بعد ان کی کوشش ہو گی کہ ترک پارلیمان ملک میں شدید نوعیت کے جرائم کے مرتکب مجرموں کے لیے سزائے موت کی بحالی کے قانون کی جلد از جلد منظوری دے دے۔
یہ بات یورپی یونین کے لیے قابل قبول نہیں ہو گی کیونکہ یونین کے رکن تمام ملکوں میں سزائے موت کا قانون عملاﹰ ختم کیا جا چکا ہے اور ترکی یونین کی رکنیت کا خواہش مند ہے، جس کے ساتھ برسلز کے مذاکرات بھی کئی برسوں سے جاری ہیں۔
اس سلسلے میں یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر نے آج اتوار کے روز تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ترکی میں آئندہ سزائے موت کا قانون بحال کر دیا گیا، تو انقرہ کی یورپی یونین میں شمولیت کی کوششوں کے حوالے سے یہ بات ایک حتمی ’سرخ لکیر‘ ثابت ہو گی۔