ایڈز کے خلاف جنگ میں سوچ کی تبدیلی ضروری
22 جولائی 2010ایڈز کا سبب بننے والے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششوں کے حوالے سے یہ نقطہ نظر آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں جاری عالمی ایڈز کانفرنس کے دوران بدھ کو پیش کیا گیا۔
اس کا ایک ثبوت یہ ہےکہ ایشیا کے کم از کم پچیس ممالک میں آج بھی منشیات کے استعمال یا انہیں اپنے پاس رکھنے جیسے جرائم کے الزام میں متعلقہ افراد کو موت کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ اس طرح منشیات کے عادی افراد سزاؤں سے بچنے کے لئے اپنا علاج کروانے سے ڈرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے لئے رپورٹیں تیار کرنے والے خصوصی نمائندے اور معروف ماہر قانون آنند گروور کے بقول یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ انجیکشن کے ذریعے منشیات کا استعمال دنیا بھر میں ایڈز کے تیز رفتار پھیلاؤ کی ایک مرکزی وجہ ہے۔ اسی طرح جیسے غیر محفوظ جنسی رابطوں کے ذریعے بھی ایڈز کا وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو جاتا ہے۔
ایشیا بحرالکاہل کے علاقے میں ایچ آئی وی سے متاثرہ انسانوں کی مدد کرنے والے نیٹ ورک اے پی این پازیٹو کی خاتون عہدیدار راکیل اونگ کہتی ہیں کہ کئی ایشیائی ریاستوں میں منشیات کے عادی افراد اپنے لئے فائدہ مند اور مددگار ثابت ہونے والی کسی بھی طرح کی سہولیات استعمال کرنے سے پہلے ہی جیلوں میں بند کر دئے جاتے ہیں۔
آنند گروور کے بقول ایشیا میں پندرہ ممالک ایسے ہیں جہاں ہم جنس پرست افراد پر لگے الزامات ثابت ہو جانے کے بعدانہیں عدالتوں کی طرف سے سزائیں سنا دی جاتی ہیں۔ اس طرح وہ لوگ جو ممکنہ طور پر ایڈز کا شکار ہو سکتے ہیں، یا جو ایچ آئی وی وائرس کا شکار ہونے کے بعد اس کے پھیلاؤ کا باعث بھی بن سکتے ہیں، اور بھی زیادہ پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔
آنند گروور نے ویانا کانفرنس کے شرکاء کو بتایا کہ بھارت کے کئی حصوں میں منشیات کا استعمال صدیوں سے جاری ہے اور ماضی میں بھارتی معاشرے میں سیکس ورکرز کو ان کی سماجی حیثیت کی وجہ سے بڑی اہمیت حاصل ہوتی تھی۔
انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کے کئی علاقوں میں افیون کی گولیاں کھانا آج بھی معمول کی بات ہے اور ماضی میں اہم گھرانوں میں سماجی آداب سیکھنے کے لئے ایسی خواتین کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں، جن کے اعلیٰ طبقے سے رابطے ہوتے تھے لیکن جو اپنے دور کی سیکس ورکرز ہی ہوتی تھیں۔
ویانا کی عالمی ایڈز کانفرنس میں اس موضوع پر بحث کے دوران یہ مطالبہ کیا گیا کہ منشیات کے استعمال، سیکس ورکرز اور ہم جنس افراد کے مابین جنسی رابطوں کے سلسلے میں عوامی سوچ کو غیر متعصب بنانے کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ ہم جنس پرست افراد کو جرائم کا مرتکب قراردینے کی سوچ بھی بدلنی چاہئے اور سبھی ایشیائی ملکوں کی حکومتوں کو اس بارے میں ایک ٹھوس اور روشن خیال پالیسی اپنانا چاہئے ۔ انہیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ایڈز اور ایچ آئی وی وائرس کے پھیلاؤ کو کس طرح روکا جا سکتا ہے۔
رپورٹ : عصمت جبیں
ادارت : کشور مصطفیٰ