ایک افغان مہاجر کی پاکستان میں چالیس سالہ جدوجہد کی کہانی
30 جون 2024پاکستان میں افغان مہاجرین کی بہت بڑی تعداد میں آمد کا سلسلہ انیس سو ستر کی دہائی کے اواخر میں ہندوکش کی اس ریاست میں سابق سوویت یونین کی فوجی مداخلت کے فوری بعد شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد کے چار دہائیوں سے بھی کہیں زیادہ طویل عرصے میں پاکستان میں کئی ملین کی تعداد میں افغان مہاجرین قیام پذیر رہے اور امید کرتے رہے کہ ان کے وطن میں خانہ جنگی ختم ہو گی، حالات بہتر ہوں گے تو وہ واپس چلے جائیں گے۔
یہ دربدر لوگ کون ہیں! کبھی سوچا آپ نے؟
لیکن یہ امیدیں پوری نہ ہوئیں اور پاکستان میں آج بھی لاکھوں کی تعداد میں افغان شہری اور ان کے خاندان باقاعدہ رجسٹرڈ مہاجرین کے طور پر مقیم ہیں۔ مہاجرت کی زندگی میں جدوجہد بقا کے لیے ہو اور عرصہ دہائیوں کا، تو اس میں لاتعداد زیر و بم آتے ہی ہیں۔
پاکستان میں سال ہا سال سے مقیم افغان مہاجرین میں سے ہر ایک کی کہانی منفرد ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی حاجی رفیق نامی اس افغان شہری کی ہے، جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ پشاور میں رہتے ہیں۔
سولہ برس کی عمر میں ترک وطن
اس وقت 56 سالہ حاجی رفیق جب بطور مہاجر پاکستان آئے تو ان کی عمر صرف 16 برس تھی۔ آج انہیں پاکستان میں رہتے ہوئے چالیس برس ہو گئے ہیں۔ شروع میں وہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں قیام پذیر رہے اور پھر انہوں نے پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں اپنا کاروبار شروع کیا۔ پہلے وہ سولہ سال تک پھل اور سبزیاں بیچتے رہے اور اس کے بعد اپنی ایک دکان شروع کی، جس میں وہ کوٹ، اوورکوٹ اور واسکٹیں بیچتے تھے۔ آج حاجی محمد رفیق ایک وسیع کاروبار کے مالک ہیں۔ پاکستان میں ان کا اپنا گھر اور کاروبار ہے اور ان کا پورا خاندان بھی ان کے ساتھ رہتا ہے۔
لیکن حاجی رفیق کو آج بھی پاکستان میں غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے اور وہ ذہنی طور پر بے چین رہتے ہیں، یہ سوچ کر کہ انہیں کسی بھی وقت پاکستان سے رخصتی کا حکم مل سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے بچے تو پاکستان کو ہی اپنا ملک سمجھتے ہیں۔ وہ افغانستان جا کر خوش نہیں ہوتے۔ لیکن خود حاجی محمد رفیق چونکہ افغانستان میں پیدا ہوئے تھے، اس لیے انہیں اپنے وطن کی یاد بھی آتی ہے اور وہ وہاں جا کر خوش بھی ہوتے ہیں۔
پاکستان میں مریضوں کے لیے ویزا فری انٹری، افغان باشندے خوش
حاجی محمد رفیق کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے لاکھوں افغان باشندے انتہائی مشکل زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کو اب انہیں، ان کے اہل خانہ اور ان جیسے دیگر افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دے دینا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ تفصیلی بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''میرے بچے، پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں سب یہاں پاکستان میں ہی پیدا ہوئے اور انہوں نے یہیں پر تعلیم حاصل کی یا کر رہے ہیں۔ میرے بچوں کے کاروبار بھی یہیں پر ہیں۔ وہ افغانستان جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘
مہاجرت کیوں کی اور کیسے؟
حاجی محمد رفیق کہتے ہیں کہ انہیں درست تاریخ تو یاد نہیں، لیکن یہ یاد ہے کہ تب افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اللہ کا دور حکومت تھا جب ملکی نوجوانوں کو زبردستی فوج میں بھرتی کرنے کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ''میری عمرکے نوجوانوں کو وہ دیکھتے ہی ساتھ لے جاتے تھے اور پھر انہیں ان کی مرضی کے برعکس بھرتی کر کے میدان جنگ کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔ میرے لیے ایک ٹین ایجر کے طور پر اپنا ملک اور گھر بار چھوڑنا انتہائی تکلیف دہ بات تھی۔ لیکن پھر ایک دن یہ مشکل فیصلہ بھی کرنا ہی پڑا۔‘‘
پاکستان افغان مہاجرین کے ساتھ تحمل کا مظاہرہ کرے، طالبان
قریب چار عشروں سے پاکستان میں بطور مہاجر مقیم اس افغان شہری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجھے افغانستان سے نکلنا ہی پڑا۔ ایک تکلیف دہ سفر کے بعد تیری مینگل کے راستے میں پاکستان پہنچا۔ چھ ماہ تک وزیرستان میں رہا۔ پھر چھ ماہ میانوالی میں رہنے کے بعد پشاور کا رخ کیا۔ پہلی بار جب میں پشاور پہنچا، تو مجھے یہ شہر اپنا سا لگا۔ بس وہ دن اور آج کا دن، میں پشاور ہی کا ہوکر رہ گیا۔‘‘
تب افغانستان کے حالات روز بروز بگڑتے ہی رہتے تھے۔ پھر جب سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئیں، تو عام لوگوں کے زندگی مشکل تر ہو گئی۔ اسی دور میں افغان باشندوں کی بہت بڑی تعداد ترک وطن کر کے پاکستان پہنچ گئی۔ ان میں محمد رفیق کے خاندان کے ارکان بھی شامل تھے۔
شادی پشاور ہی میں ہوئی
اس افغان شہری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے سولہ سال تک پشاور میں فروٹ کا کاروبار کیا۔ اس دوران پشاور میں ہی میری شادی بھی ہو گئی۔ میرے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ سب بچے پڑھے لکھے ہیں اور انہوں نے دنیاوی کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کی ہے۔ ان میں گریجویٹ بھی ہیں اور پوسٹ گریجویٹ بھی۔ میرا سب سے چھوٹا بیٹا فرہاد اللہ پشاور کے ایک نجی سکول میں آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ میرے دیگر بچوں نے تو سرکاری تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی۔ لیکن جب افغان باشندوں کے سرکاری اسکولوں میں داخلے پر پابندی لگائی گئی، تو میں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو ایک نجی اسکول میں داخل کرا دیا۔‘‘
پاکستان، افغان مہاجرین کے انخلا کے معاشی اثرات
حاجی محمد رفیق اپنی تینوں بیٹیوں اور چند بیٹوں کی شادیاں کر چکے ہیں۔ ان کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں سب پاکستان میں ہی پیدا ہوئے۔ یہ تمام کم عمر بچے اردو لکھ پڑھ سکتے ہیں اور انہیں دری یا فارسی زبانیں نہیں آتیں، ''یہ نئی نسل یا تو افغانستان جاتی ہی نہیں اور اگر جائے بھی تو وہاں خوش نہیں رہتی۔ ہفتے دس دن بعد واپسی پر اصرار کرنے لگتی ہے۔ میرے گھرانے کے کئی بچے تو اب تک سرے سے افغانستان گئے ہی نہیں۔‘‘
پشاور میں پرسکون زندگی
پاکستان اور بالخصوص پشاور میں گزارے گئے بہت سے برسوں کے بارے میں حاجی محمد رفیق کہتے ہیں کہ ان کی پاکستان کے اس شہر میں زندگی اب تک اس حد تک پرسکون گزری ہے کہ انہیں کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ اپنے وطن سے باہر کسی دوسرے ملک میں رہتے ہیں۔
غیر قانونی تارکین وطن معیشت اور سلامتی کے لیے خطرہ، عاصم منیر
ان کا کہنا تھا، ''میں چونکہ ایک کاروباری آدمی ہوں تو میرے دوستوں اور جاننے والوں کا ایک وسیع حلقہ پورے پاکستان میں پھیلا ہوا ہے۔ ہم سب اپنے احباب اور رشتہ داروں کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں۔ صرف پشاور میں ہی پہلے میرے رشتہ دار خاندانوں کی تعداد 210 تھی، جو اب کم ہوکر 75 رہ گئی ہے۔
موجودہ سماجی مشکلات کس نوعیت کی؟
اس سوال کے جواب میں کہ اس افغان مہاجر کو پاکستان میں فی زمانہ کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، حاجی محمد رفیق نے بتایا، ''پہلے زیادہ مشکلات نہیں تھیں۔ اب لیکن مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ میں نے بے یقینی کی موجودہ صورت حال کے باعث ہی اپنا ایک کروڑ روپے کا ذاتی گھر صرف 41 لاکھ روپے میں فروخت کر دیا۔ اس کے علاوہ اب اگر ہمارے گھرانے کا کوئی فرد افغانستان جائے، تو اسے واپسی میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔ میرے چچا زاد بھائی نے ایک پاکستانی لڑکی سے شادی کی۔ دونوں افغانستان گئے، تو لڑکی کے پاس شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہیں تھا۔ اب وہ دونوں وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘
پاکستان میں کاروباری مشکلات
حاجی محمد رفیق کہتے ہیں کہ تین سال پہلے ان کے ساتھ 40 کاریگر کام کرتے تھے اور ہر کاریگر کے پاس چار سے پانچ تک معاون کاریگر ہوتے تھے۔ یوں بہت سے لوگوں کا روزگار لگا ہوا تھا۔ ان کے بقول یہ سب پاکستانی تھے اور ہر کاریگر یومیہ ہزار سے ڈیڑھ ہزار روپے کما لیتا تھا، ''اب لیکن وہ پہلے جیسی بات نہیں رہی۔‘‘
پاکستان چھوڑنے والے مہاجرین کا افغانستان میں 'کوئی ٹھکانہ نہیں'
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں کوٹ اور واسکٹیں یہاں پاکستان میں اور افغانستان میں بھی سپلائی کرتا تھا۔ اب افغانستان کے ساتھ تجارت تقریباﹰ ختم ہے اور وہاں کے تاجر ایران، تاجکستان اور بھارت کے ساتھ تجارت کرتے ہیں۔ سب سے بڑی مشکل پاکستانی ویزے کی وجہ سے ہے، جو درخواست دینے کے بعد چھ سے سات ماہ میں جاری کیا جاتا ہے۔ ارجنٹ ویزا کی فیس ڈالروں میں اور بہت زیادہ ہے، جو ہر کوئی ادا نہیں کر سکتا۔ میں جو کاروبار یہاں کرتا ہوں، وہ افغانستان میں کرنا اب ممکن ہی نہیں رہا کیونکہ اب ایک افغانی تقریباﹰ چار پاکستانی روپے کے برابر ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پاکستان میں میرا کاروبار کریڈٹ پر چلتا ہے، میں یہاں سے ادھر ادھر ہو جاؤں، تو میری ساری رقم ڈوب جائے گی۔ ہم تو بینک میں اپنا اکاؤنٹ تک نہیں کھول سکتے اور پولیس ہمیں علیحدہ تنگ کرتی ہے۔‘‘
افغانستان میں ذاتی آمدنی کے ذرائع
حاجی محمد رفیق نے بتایا کہ پاکستان میں ان کو اپنے ذاتی کاروبار سے ہونے والی آمدنی کے علاوہ کچھ آمدنی افغانستان سے بھی ہو جاتی ہے۔ ان کا تعلق شمالی افغانستان سے ہے، جہاں ان کی ملکیتی زرعی زمین پر انگور کے باغات ہیں۔ یہ باغات انہوں نے ایک مقامی زمیندار کے حوالے کر رکھے ہیں، جسے وہ خرچہ بھی بھیجتے ہیں۔
پاکستان افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیوں کر رہا ہے؟
''جب فصل تیار ہو جاتی ہے، تو ہمیں بتا دیا جاتا ہے۔ زمیندار اپنا حصہ رکھ لیتا ہے اور ہمارا حصہ ہمیں دے دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ہماری ایک رہائش گاہ کابل میں بھی ہے اور وہاں بھی کچھ زرعی زمین ہماری ملکیت ہے۔‘‘