ایک مسیحی شخص پر ’توہین مذہب‘ کا الزام
12 جولائی 2016یاسر بشیر نے اتوار کے روز پاکستانی صوبے پنجاب کے ضلع گجرات کی پولیس کو ندیم جیمز کے خلاف شکایت درج کروائی تھی۔ یاسر کا کہنا ہے کہ ندیم نے اسے موبائل فون ایپ ’واٹس ایپ‘ کے ذریعے ایک ’توہین آمیز‘ نظم بھیجی تھی۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے مقامی پولیس اہلکار ثناء اللہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے،’’ ہم نے نظم میں استعمال کیے گئے توہین آمیز الفاظ کی بنیاد پر کیس درج کیا ہے اور ندیم جیمز کو تلاش کر رہے ہیں۔‘‘ ثناء اللہ نے مزید بتایا کہ یہ نظم انتہائی ’توہین آمیز‘ ہے، اسی لیے کیس درج کیا گیا ہے، ’’مجھے اس نظم کو پڑھنے پر بھی افسوس ہے‘‘۔
تیس سالہ ندیم ایک شادی شدہ شخص ہے اور اپنے خلاف کیس درج ہونے کے بعد سے اپنے علاقے سے فرار ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کا نفاذ سابق فوجی جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں ہوا تھا۔ اور اس جرم کے ثابت ہونے کی صورت میں قید یا پھانسی کی سزا دی بھی جا سکتی ہے۔
'نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس‘ کے مطابق سن 1987 سے 2015ء تک 1481 افراد پر توہین رسالت یا مذہب کے قانون کے تحت الزامات لگائے جاچکے ہیں۔ ان افراد میں 736 مسلمان، 502 احمدی، 206 مسیحی اور 26 ہندو ہیں جبکہ 11 ایسے افراد بھی ہیں، جو کسی بھی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔
اب تک 9 افراد کو توہین رسالت قانون کے تحت سزائے موت سنائی جا چکی ہے اور تین افراد کو عمر قید کی سزا ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ اب تک کسی شخص کو بھی اس قانون کے تحت پھانسی نہیں دی گئی۔