1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر مبینہ حملوں کے سبب سرحد پر کشیدگی

12 اگست 2024

ہزاروں بنگلہ دیشی سرحد پار کر کے بھارت میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے سرحدی علاقوں میں زبردست کشیدگی پائی جاتی ہے۔ حالات پر قابو پانے کے لیے بھارت اور بنگلہ دیش کی سرحدی فورسز کی ایک مشترکہ میٹنگ بھی ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/4jMgC
بنگلہ دیش کی سرحد پر بھارتی فورسز
کشیدگی کے سلسلے میں بنگلہ دیش کی بارڈر فورس اور بھارتی بی ایس ایف کے حکام کے مابین ایک ملاقات بھی ہوئی ہے، تاکہ حالات کو بے قابو ہونے سے روکا جا سکےتصویر: Biswa Kalyan Purkayastha

بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفے اور فرار ہو کر بھارت جانے کے بعد کی صورت حال میں مبینہ طور پر بنگلہ دیش کے مختلف علاقوں میں ہندو اقلیتی برادری پر حملے بھی ہوئے ہیں، جن سے خوفزدہ ہو کر بہت سے بنگلہ دیشی سرحد عبور کر کے بھارت میں داخل ہونے کی کوشش میں مشترکہ سرحد پر جمع ہیں۔

بنگلہ دیش میں عبوری حکومت معاشی اصلاحات کی متحمل ہو سکے گی؟

بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسے ’’غیر قانونی پناہ گزینوں‘‘ کو سرحد پار کرنے سے روکنے کے لیے بڑی تعداد میں سرحدی فورس بی ایس ایف کو اہلکاروں کو تعینات کیا ہے اور انہیں ریڈ الرٹ پر رکھا گیا ہے۔

بنگلہ دیش: چیف جسٹس اور مرکزی بینک کے گورنر اپنے عہدوں سے مستعفی

بی ایس ایف حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران ایسے متعدد بنگلہ دیشیوں کو حراست میں لے لیا گیا، جو پڑوسی ملک سے فرار ہو کر بھارت میں دراندازی کی کوشش کر رہے تھے۔

بنگلہ دیشی قوم مذہبی اتحاد قائم رکھے، محمد یونس کی اپیل

بھارتی حکام نے ملکی میڈیا سے بات چیت میں کہا، ’’گیارہ بنگلہ دیشی شہریوں کو بھارت میں دراندازی کرتے ہوئے سرحد پر پکڑا گیا ہے۔ ان میں سے دو کو مغربی بنگال اور دو کو تری پورہ میں مشترکہ سرحد سے پکڑا گیا جبکہ سات کو میگھالیہ کی سرحد سے حراست میں لیا گیا۔ ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔‘‘

بھارتی بنگلہ دیشی سرحد پر کشیدگی

نئی دہلی میں ڈی ڈبلیو کی بنگلہ سروس کے نامہ نگار شیامنتک گھوش اس وقت بھارت اور بنگلہ دیش کی مشترکہ سرحد پر موجود ہیں، جن کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سرحد پر ہزاروں بنگلہ دیشی بھارت میں داخل ہونے کے لیے جمع ہیں، جس کی وجہ سے وہاں بحرانی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔

بنگلہ دیش میں انتشار پھیلانے والوں کو کچل دیا جائے گا، م‍‍حمد یونس

انہوں نے بتایا، ’’سرحد پر بہت زیادہ کشیدگی ہے۔ ہر جانب سکیورٹی اہلکاروں کا سخت ترین پہرہ ہے۔ مغربی بنگال کے سرحدی ضلع کوچ بہار میں سرحد کے اس پار ہزار سے زیادہ لوگ بھارت میں داخلے کے لیے کھڑے ہیں۔ اس جگہ پر دونوں ملکوں کے درمیان ایک دریا ہے اور لب دریا بہت سے لوگ جمع ہیں، تاکہ سرحد عبور کر سکیں۔ تاہم بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکاروں کی بڑی تعداد نے انہیں روک رکھا ہے۔‘‘

بنگلہ دیش میں دائیں بازو کے مذہبی گروہ طاقت جمع کر سکتے ہیں کیا؟

شیامنتک گھوش نے بتایا کہ اسی طرح سرحدی علاقوں میں مختلف مقامات پر لوگ جمع ہیں، تاہم بھارت نے بنگلہ دیش کے ساتھ ہزاروں کلومیٹر طویل اپنی سرحد کی نگرانی کے لیے اضافی فورسز کو بھی تعینات کر دیا ہے، جس سے سرحد پر بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔

سینکڑوں بنگلہ دیشی ہندو بھارت میں داخل ہونے کی کوشش میں

انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں بنگلہ دیش کی بارڈر فورس اور بھارتی بی ایس ایف کے حکام کے مابین ایک ملاقات بھی ہوئی ہے، تاکہ حالات کو بے قابو ہونے سے روکا جا سکے۔

بنگلہ دیش: عبوری سیٹ اپ میں اہم کھلاڑی کون ہوں گے؟

اسی دوران بھارتی بی ایس ایف کے ایک افسر کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہو گئی ہے، جس میں وہ ایک بڑے ہجوم کو بھارت میں داخل نہ ہونے کی نصیحت کر رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کے سیاسی حالات اور بھارت کو درپیش چیلنجز

اس ویڈیو میں وہ کہتے دکھائی دیتے ہیں، ’’ہم جانتے ہیں کہ آپ کو اس مسئلے کا سامنا ہے، ہر کوئی اس مسئلے کو سمجھتا ہے۔ آپ یہاں آئے ہیں۔ لیکن یہ قابل بحث موضوع ہے۔ اسے اس طرح حل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

کیا پاکستان میں بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں؟

’’ہم آپ کو اپنی مرضی کے مطابق اندر (بھارت میں) نہیں لے جا سکتے اور اگر آپ اس طرح شور مچائیں گے، تو آپ سمجھ نہیں پائیں گے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ ہمارے سینیئر افسران بھی یہاں موجود ہیں اور ان کی طرف سے بھی میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے اعلیٰ افسران نے آپ کے ملک کے اعلیٰ افسروں سے بات کی ہے اور وہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ آج ہی کے دن واپس چلے جائیں۔‘‘

محمد یونس کی ہندو طلبہ سے ملاقات

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس ملک کی اقلیتی ہندو برادری پر ہونے والے حالیہ مبینہ حملوں سے نمٹنے کے لیے پیر کے روز اقلیتی نوجوانوں سے ملاقات کر رہے ہیں۔

ڈھاکہ میں تباہ شدہ مجسمے
بنگلہ دیش میں مطاہرین نے بہت سی یادگاروں کو بھی نقصان پہنچایا ہے، جس میں بعض کا تعلق سن 1971 میں بنگلہ دیشی کی آزادی سے سے متعلق ہیںتصویر: Kazi Salahuddin Razu/NurPhoto/IMAGO

عبوری حکومت کا کہنا ہے کہ یہ بات چیت موجودہ بحران کو حل کرنے اور مقامی ہندو برادری کے تحفظ کو یقینی بنانے پر مرکوز رہے گی۔ اطلاعات کے مطابق پانچ اگست کو شیخ حسینہ کی قیادت میں قائم ملکی حکومت کے خاتمے کے بعد سے بنگلہ دیش میں مذہبی اقلیتی برادریوں کے باشندوں کو کُل 52 اضلاع میں حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

کابینہ کے ارکان کی حلف برداری کے بعد عبوری حکومت نے اتوار کے روز اپنے پہلے سرکاری بیان میں کہا تھا، ’’کچھ مقامات پر مذہبی اقلیتوں پر حملوں کو شدید تشویش کے ساتھ نوٹ کیا گیا ہے۔‘‘

سن 1971 کی ’’جنگ کی یادگار مسمار‘‘

بھارت میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی کے رہنما ششی تھرور نے پیر کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک تصویر شیئر کی اور لکھا کہ بنگلہ دیش کی آزادی کی یاد میں بنائے گئے مجسمے کو تباہ کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے اس ٹوٹے ہوئے مجسمے کی ایک تصویر شیئر کی، جس میں سن 1971 کی جنگ کے بعد پاکستان کے ہتھیار ڈالنے کا منظر پیش کیا گیا تھا۔ انہوں نے لکھا، ’’مجیب نگر میں سن 1971 کے شہید میموریل کمپلیکس کے مجسموں کی اس طرح کی تصاویر دیکھ کر کافی دکھ ہوا۔ ایسے ایک مجسمے کو بھارت مخالف غنڈوں نے تباہ کر دیا۔‘‘

واضح رہے کہ مذکورہ ٹوٹے ہوئے مجسمے میں بھارت کے ایک فوجی جنرل کو دکھایا گیا تھا، جو اس پاکستانی فوجی جنرل کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے، جنہوں نے شکست کے بعد بھارت کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

ششی تھرور نے نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت والی نئی ​​نگران حکومت پر زور دیا کہ وہ ملک میں امن و امان کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کرے۔

مجھے آئی ایس آئی پر شبہ ہے، سجیب واجد