بنگلہ دیش میں کوڑوں کی سزا کے باعث لڑکی کی موت: چار افراد گرفتار
2 فروری 2011ڈھاکہ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق جنوبی بنگلہ دیش میں ضلع شریعت پور کے ایک گاؤں کی رہنے والی پندرہ سالہ حنا بیگم پر الزام تھا کہ اس کے اس کے ایک کزن کے ساتھ جنسی تعلقات تھے۔ اس پر اس گاؤں کی ایک مقامی عدالت نے حنا بیگم کو سو کوڑوں کی سزا سنائی تھی۔
شریعت پور میں پولیس کے سربراہ اے کے ایم شاہد الرحمان نے بتایا کہ اس نوجوان لڑکی کو کوڑوں کی سزا سنانے والی گاؤں کی ایک روایتی عوامی عدالت کے نام نہاد منصفین میں چند مقامی مذہبی رہنما بھی شامل تھے۔ ان میں سے ایک کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ باقی تین گرفتار شدگان میں اس شخص کی بیوی بھی شامل ہے، جس نے مقتولہ سے مبینہ تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ مبینہ جنسی رابطوں کے مرتکب اس مرد یا اسے سنائی جانے والی سزا کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
شاہد الرحمان نے فرانسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ حنا بیگم اور اس کے شادی شدہ کزن کے باہمی روابط کا علم ہونے کے بعد اس شخص کے اہل خانہ نے اس لڑکی کو بڑی بے رحمی سے پیٹا تھا۔ پھر ’ملزمہ‘ کو گاؤں کی ایک عدالت کے حوالے کر دیا گیا، جس نے اسے 100 کوڑوں کی سزا سنائی۔ سزا پر عملدرآمد کے نتیجے میں اس پندرہ سالہ لڑکی کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی، جس پر اسے ہسپتال پہنچا دیا گیا تھا، جہاں سات روز تک زیر علاج رہنے کے بعد گزشتہ پیر کے روز حنا کا انتقال ہو گیا تھا۔
انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق مسلم اکثریتی بنگلہ دیش کے قدامت پسند دیہی علاقوں میں ایسے واقعات بار بار دیکھنے میں آتے ہیں کہ خواتین کو غیر ازدواجی جنسی تعلقات جیسے مبینہ جرائم کی پاداش میں سر عام کوڑے مارے جاتے ہیں حالانکہ حکومت نے کسی بھی پنچایت یا روایتی دیہی عدالت کی طرف سے ایسی مذہبی سزاؤں کے اعلان یا ان پر عملدرآمد پر قانوناﹰ پابندی عائد کر رکھی ہے۔
بنگلہ دیش ہی میں کئی ایسے باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ واقعات بھی سامنے آ چکے ہیں کہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو ’ناجائز جنسی رابطوں کی مرتکب‘ قرار دے کر کوڑے مارے جا چکے ہیں۔
146 ملین کی آبادی والے جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کی 90 فیصد آبادی مسلمان ہے ، جس کا ایک بہت بڑا حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے۔ وہاں دیہی پنچایتوں یا فتوے کے نام پر مقامی مذہبی رہنماؤں کی طرف سے کیے جانے والے فیصلوں میں خواتین کے ساتھ ناانصافی کے باعث انسانی حقوق کی کئی تنظیموں نے عدالتوں میں باقاعدہ مقدمات بھی دائر کر دیے تھے۔
ایک ہی طرح کے ایسے متعدد مقدمات میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے گزشتہ برس جولائی میں ڈھاکہ ہائی کورٹ نے فتوے کے نام پر سنائی جانے والی ہر قسم کی مذہبی سزاؤں کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔
اس عدالتی فیصلے کا عملی طور پر ابھی تک کوئی زیادہ اثر نہیں ہوا۔ گزشتہ برس دسمبر میں بھی بنگلہ دیش میں ایسے ہی ایک واقعے میں ایک خاتون کو ’غیر ازدواجی جنسی تعلقات‘ کے الزام میں چالیس کوڑوں کی سزا دی گئی تھی۔ اس دوران یہ خاتون اتنی زخمی ہو گئی تھی کہ بعد ازاں اس کی موت واقع ہو گئی تھی۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: امجد علی