بچتی پروگرام کے خلاف یونان اور سپین میں احتجاج جاری
30 جون 2010یونان میں حکومت کی جانب سے حال ہی میں پیش کردہ بچتی منصوبے کے خلاف عوامی مظاہرے پرتشدد ہوتے جا رہے ہیں۔ اقتصادی بحران کے شکار اس یورپی ملک میں گزشتہ روزعام ہڑتال کے موقع پر ہوائی، ریل اور بحری سفر کرنے والے مسافروں کو سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔
احتجاجی ہڑتال کے باعث آمد و رفت کے تمام تر وسائل مکمل طور پر بند رہے۔ ہزاروں مظاہرین نے دارالحکومت ایتھنز اور دیگر اہم شہروں کی سڑکوں پر نکل کرحکومت کے بچتی پروگرام کے خلاف اپنے گہرے غم و غصے کا اظہار کیا۔ ، اس منصوبے سے 4.8 بلین یورو کی بچت متوقع ہے۔ یونانی حکومت کی طرف سے تنخواہوں اور پینشن میں کمی کے فیصلے کے اعلان کے بعد سے کل یعنی منگل کے روز وہاں پانچویں بار عام ہڑتال کی گئی ہے۔
ادھر ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ میں بھی حکومت کے بچتی پروگرام کے خلاف جاری احتجاج اور مظاہروں میں شدت آتی جا رہی ہے۔ گزشتہ دو روز سے مزدورں کی ہڑتال کے سبب انڈر گراؤنڈ ٹرینیں بند ہیں اور کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ میڈرڈ شہر کی انتظامیہ کے مطابق پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام درہم برہم ہونے کے نتیجے میں آفس کے اوقات میں سڑکوں پر پرائیویٹ گاڑیوں کا رش عام دنوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ نظرآ رہا ہے۔ تاہم ہڑتال کے پہلے روز کے مقابلے میں دوسرے دن صورت حال کسی حد تک بہتر نظر آ رہی ہے۔ پہلے دن لیبر یونین نے غیر متوقع طور پر اعلان کیا تھا کہ ٹرین کے ڈرائیورز شیڈیول کے مطابق چلنے والی ٹرینوں کے 50 فیصد کو چلانے کے لازمی قانون کی پابندی نہیں کریں گے۔ تاہم منگل کی شب لیبر یونین کے ترجمان ’ویسنتے رودریگوز‘ نے ایک بیان میں کہا کہ ہڑتال کے ختم ہونے کے امکانات کے بارے میں ابھی کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔
میڈرڈ کا ٹرانسپورٹ نیٹ ورک ہر روز تقریباً دو ملین مسافروں کو سفری سہولت فراہم کرتا ہے۔ اس نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے کارکن مقامی حکومت کی طرف سے ان کی تنخواہوں میں پانچ فیصد کی کمی کے فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
دوسری جانب یونان میں گزشتہ روز ہونے والی عام ہڑتال کے موقع پر سب سے بڑا اور مرکزی مظاہرہ ایتھنز میں ہوا، جہاں ’نیو نازیز‘ کے ایک گروپ نے مظاہرین کی طرف بڑھنے کی کوشش کی۔ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور پولیس نے مشتعل مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کا استعمال کیا۔
پولیس کے مطابق اس کارروائی میں سات پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ کم از کم 6 مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ متعدد بینکوں اور دکانوں کی عمارتوں کو توڑ پھوڑ کی کارروائیوں میں نقصان پہنچایا گیا۔
اطلاعات کے مطابق ہڑتال کے سبب یونان کے جزیروں پر آمد و رفت کا سلسلہ بند رہا اور ہزاروں مسافروں کو بندر گاہی علاقوں تک رسائی کے ذرائع میسر نہیں تھے کیونکہ 500 کے قریب اشتراکی نظریات کے حامل مظاہرین نے چھوٹے بحری جہازوں کو ایتھنز کے قریبی جزیروں تک جانے کی اجازت نہیں دی۔
ادھریونان کی مرکزی ایئر لائنز کے درجنوں جہاز رن وے پر ہی کھڑے رہے اور ریل کی ہڑتال کی وجہ سے مسافروں کی ہوائی اڈوں تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی۔ اندرون شہر بھی بہت کم ٹرینیں چل رہی تھیں جبکہ ہسپتال اور سرکاری ادارے مکمل طور پر بند رہے۔ یہاں تک کہ مظاہرین کا ساتھ صحافی برادری نے بھی دیا اور خبروں کی نشریات بھی بند رہیں۔
اس سے قبل 23 جون کو ہونے والی ایک روزہ ہڑتال میں بھی بحیرہء روم پر واقع اہم ترین تجارتی بندرگاہیں کئی گھنٹوں تک بند رہی تھیں۔ یونان میں مزدورں اور پبلک سیکٹر ورکرز کی طرف سے آئے روز ہونے والی ان ہڑتالوں کے سبب ملک کو کروڑوں یورو کا نقصان ہوا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ ایتھنز حکومت ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے غیر معمولی بچتی اقدامات کر رہی ہے، اس قسم کے مظا ہرے ملک کے لئے مزید نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ تاہم مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس بحران کے ذمہ دار عوام نہیں ہیں، لہٰذا ان سے اس کی قیمت وصول نہیں کی جاسکتی۔
گزشتہ دنوں اور مہینوں میں یونان میں ہڑتال کرنے والے مظاہرین نے مختلف بینرز اور کتبے بھی اٹھا رکھے تھے، جن میں سے کچھ پر درج تھا، ’فرانس ہمیں بحری آبدوزیں فروخت کرتا ہے، جرمنی جنگی ہوائی جہاز جبکہ ہم یونانی فاقہ کشی کا شکار ہیں۔‘
یونانی وزیراعظم جارج پاپاندریو ملک کو درپیش اس اقتصادی بحران کو ایک طرح کی ایمرجنسی سے تعبیر کر چکے ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: گوہر نذیر گیلانی