ترکی: میڈیا سے متعلق نیا قانون، 'غلط معلومات' پر جیل کی سزا
14 اکتوبر 2022ترکی کی پارلیمنٹ نے جمعرات کے روز صدر رجب طیب ایردوآن کی طرف سے تجویز کردہ وہ قانون منظور کر لیا، جس کے تحت صحافیوں اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو ''غلط معلومات'' پھیلانے پر تین برس تک قید کی سزا ہو سکے گی۔
یورپی کونسل نے اس پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ اس میں ''غلط معلومات'' کی مبہم تعریف اور پھر جیل جانے کا خطرہ، کم سے کم جون 2023 میں ہونے والے انتخابات کے پیش نظر تو کافی' ''پریشان کن اثرات کا باعث بننے کے ساتھ ہی سیلف سنسرشپ میں بھی اضافہ کر سکتا ہے۔''
ترکی نے ڈی ڈبلیو پر پابندی لگانے کی دھمکی دی
قانون کی دفعہ 29 آزادی اظہار کے تعلق سے سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ ''خوف پیدا کرنے اور امن عامہ کو خراب کرنے'' کے مقصد سے ترکی کی سکیورٹی کے بارے میں آن لائن غلط معلومات پھیلائیں گے، انہیں ایک سے تین برس تک قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حزب اختلاف کی مرکزی جماعت 'ریپبلکن پیپلز پارٹی' (سی ایچ پی) سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان عینین اعلاتی نے اس پر حتمی ووٹنگ سے چند منٹ قبل کہا کہ پریس کی آزادی میں ملک پہلے ہی دوسروں کے مقابلے میں کافی پیچھے ہے اور اس قانون سے تو ''اس فہرست میں اس کی درجہ بندی کرنا ہی مشکل ہو جائے گا۔''
سینسر شپ کے خلاف احتجاج، اخبارات سیاہ
لیکن صدر ایردوآن کی حکمران جماعت اے کے پی نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر غلط معلومات اور جھوٹے الزامات کو روکنے کے لیے قوانین کی ضرورت ہے۔ اس کے مطابق یہ قانون اپوزیشن کو خاموش کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا ہے۔ اب اس بل کو حتمی منظوری کے لیے صدر کے پاس بھیجا جائے گا۔
ڈی ڈبلیو کی جانب سے ترک زبان میں یوٹیوب چینل کا آغاز
آئندہ برس انتخاب سے پہلے؟
ترکی میں آئندہ برس صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں اور موجودہ انتخابی جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر طیب ایردوآن اور ان کی جماعت کی حمایت میں گزشتہ انتخابات کے بعد مسلسل کمی ہوتی جا رہی ہے۔ اس تناظر میں میڈیا کی آزادی کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
حقوق کی نگرانی کرنے والی کونسل آف یورپ کو مشورہ دینے والے وینس کمیشن کا کہنا ہے کہ ووٹ سے پہلے قانون بنانے اور اس میں جیل کی سزا کے بارے میں جو بات کہی گئی ہے اس کے نتائج کے بارے میں وہ فکر مند ہے۔ ادارے کے مطابق اس کے، ''دور رس اثرات مرتب ہونے کے ساتھ ہی سیلف سنسرشپ میں بھی اضافہ ہو گا۔''
نیا قانون غلط یا گمراہ کن معلومات پھیلانے کا قصوروار پائے جانے والوں کے لیے جرمانہ عائد کرنے اور جیل کی سزا کی بات کرتا ہے۔ اس کے لیے سوشل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ سائٹس کو ان صارفین کی ذاتی تفصیلات کو بھی حکومت کو مہیا کرنے کی ضرورت ہو گی جن پر ''گمراہ کن معلومات پھیلانے'' کا شبہ ہو۔
سوشل میڈیا کے خلاف کارروائی
ترکی کے بیشتر اخبارات اور ٹی وی چینلز سن 2016 میں ناکام بغاوت کے بعد بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کے دوران سرکاری اہلکاروں اور ان کے کاروباری اتحادیوں کے کنٹرول میں آ گئے۔
لیکن سوشل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ پر مبنی میڈیا بڑی حد تک اس نگرانی سے پاک رہا ہے۔ تاہم بعد میں ترکی نے بھاری جرمانے کی دھمکی کا استعمال کرتے ہوئے فیس بک اور ٹویٹر جیسے بڑے اداروں کو بھی مقامی نمائندے مقرر کرنے پر مجبور کیا، تاکہ وہ متنازعہ پوسٹس کو ہٹانے کے لیے مقامی عدالت کے احکامات کی فوری تعمیل کر سکیں۔
اسی دوران صدر ایردوآن نے یہ بحث بھی شروع کر دی کہ ترکی کا انتہائی منقسم معاشرہ خاص طور پر جعلی اور گمراہ کن خبروں کا شکار ہے۔ گزشتہ دسمبر میں انہوں نے کہا تھا کہ سوشل میڈیا ''آج کی جمہوریت کے لیے ایک اہم خطرہ بن گیا ہے۔''
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے رواں برس کے اوائل میں جاری کردہ اپنی سالانہ میڈیا فریڈم انڈیکس میں ترکی کو 180 ممالک میں سے 149ویں نمبر پر رکھا تھا۔ ایک غیر سرکاری تنظیم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' کے سالانہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ناکام بغاوت کے بعد کئی برسوں تک سب سے زیادہ ترکی صحافیوں کی جیل جانا پڑا۔ حالانکہ اس زمرے میں سن 2021 میں درجہ بندی میں ترکی آخری چھٹے نمبر پر آ گیا۔
جولائی میں ترکی کی ریڈیو اور ٹیلی ویژن سپریم کونسل نے لائسنس کے مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے جرمن پبلک براڈکاسٹر ڈوئچے ویلے کی ویب سائٹس کو بلاک کر دیا تھا۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)