ترک ریفرنڈم میں خامیاں تھیں، بین الاقوامی مبصرین کی رپورٹ
17 اپریل 2017ترک دارالحکومت سے پیر سترہ اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ان بین الاقوامی مبصرین نے اتوار سولہ اپریل کو کرائے گئے اس آئینی ریفرنڈم کے سلسلے میں اپنی جو ابتدائی رپورٹ آج انقرہ میں پیش کی، اس میں کہا گیا ہے کہ ملکی انتخابی بورڈ کے عین آخری وقت پر کیے گئے چند فیصلے ایسے بھی تھے، جنہوں نے صاف اور شفاف عوامی رائے دہی کے عمل کو یقینی بنانے کی کوششوں کو نقصان پہنچایا۔
مثال کے طور پر اس بورڈ نے، جو ترکی میں کسی بھی نوعیت کی سرکاری طور پر اہتمام کردہ عوامی رائے دہی کے عمل کا نگران اعلیٰ ترین ملکی ادارہ ہے، آخری وقت پر یہ فیصلہ بھی کیا تھا کہ ایسے ووٹ بھی جائز سمجھے جائیں گے اور ان میں دی گئی رائے قانوناﹰ مؤثر سمجھی جائے گی، جن پر کوئی سرکاری مہر نہ لگی ہوئی ہو۔
ترک ریفرنڈم: نتائج قانوناﹰ کتنے درست ہیں؟ ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
آئینی ریفرنڈم: ایردوآن کا فتح کا اعلان، اپوزیشن کا احتجاج
ترک ریفرنڈم: حکومتی نظام کی تبدیلی کے حامیوں کی سبقت
ترکی میں کل ہونے والے ریفرنڈم کی شفافیت کی نگرانی کے لیے جو بین الاقوامی مبصرین مشترکہ طور پر وہاں بھیجے گئے تھے، ان کا تعلق کونسل آف یورپ کی پارلیمانی اسمبلی (PACE) اور یورپی سلامتی اور تعاون کی تنظیم OSCE کے انسانی حقوق اور جمہوری اداروں کے دفتر (ODIHR) سے تھا۔
ان دونوں اداروں کے مبصرین کے مشترکہ مشن کی سربراہی کرنے والی شخصیت سیزار فلورین پریدا نے، جن کے پاس کونسل آف یورپ کی پارلیمانی اسمبلی کے وفد کی سربراہی بھی تھی، پیر کے روز انقرہ میں کہا کہ ریفرنڈم کے لیے چلائی جانے والی سیاسی مہم ایک ’غیر ہموار سطح‘ پر مکمل کی گئی۔
اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ ریفرنڈم سے قبل رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی خاطر حکومتی دھڑے کو جو امکانات میسر تھے، وہ اس آئینی ریفرنڈم کے مسترد کیے جانے کے حامیوں کو حاصل نہیں تھے۔ پریدا نے اپنی رپورٹ میں اس سلسلے میں شکایت کے لیے ’کھیل کے غیر ہموار میدان‘ کی اصطلاح استعمال کی۔
یورپی یونین سے تعلقات پر نظر ثانی ضروری، ترک صدر ایردوآن
ترکی میں آئینی ریفرنڈم: حقائق، جو آپ کو جاننے چاہییں
سیزار فلورین پریدا نے صحافیوں کو بتایا، ’’اس ریفرنڈم کے لیے سیاسی مہم کے دوران دونوں سیاسی دھڑوں کو یکساں مواقع دستیاب نہیں تھے۔ اس کے علاوہ ووٹوں کی گنتی کے عمل میں آخری وقت پر کچھ تبدیلیوں کے ساتھ جملہ حفاظتی رکاوٹوں میں سے چند ایک اس طرح گرا دی گئی تھیں کہ ان ووٹوں کو بھی درست سمجھنے کا فیصلہ کیا گیا، جن پر کوئی سرکاری مہر نہ لگی ہوئی ہو۔‘‘
انہی بین الاقوامی مبصرین نے یہ بھی کہا کہ ان کی رائے میں ریفرنڈم سے پہلے کی سیاسی مہم میں میڈیا کوریج کے حوالے سے بھی ’ہاں‘ کے حامی دھڑے کو زیادہ اہمیت دی گئی جبکہ ’نہ‘ کے حامیوں کا چند سرکاری حکام نے تو ’دہشت گردوں تک سے موازنہ‘ کرتے ہوئے اپنی حیثیت کا غلط استعمال کیا۔