’توہین رسالت کے ملزم کے خلاف تفتیش پھر سے ہوگی‘
19 فروری 2011سترہ سالہ سمیع اللہ کے مقدمے کی دوبارہ تفتیش کا مطالبہ استغاثہ حکام نے کیا تھا، جنہوں نے مزید اعلیٰ سطح پر الزامات کی جانچ کا ذکر کیا تھا۔
سمیع اللہ کو انتیس جنوری کو کراچی میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے اپنے امتحانی پرچے میں پیغمبر اسلام کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کی۔ انسانی حقوق کے گروپ اس کے خلاف مقدمہ بنائے جانے کی مذمت کر چکے ہیں۔
سمیع نے امتحانی بورڈ سے معذرت طلب کی تھی، تاہم اس کی معافی قبول نہیں کی گئی اور یہ معاملہ پولیس کے سپرد کر دیا گیا۔ پولیس نے اپنی رپورٹ فائل کی تو استغاثہ حکام نے یہ کہتے ہوئے اسے قبول نہیں کیا کہ یہ رپورٹ کراچی کے غلط ضلع میں جمع کرائی گئی جبکہ جس پولیس اہلکار نے رپورٹ مرتب کی، وہ ایسا کرنے کا اہل بھی نہیں ہے۔
کراچی کے ضلع وسطی کے اٹارنی آفس میں تعینات ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مقدمہ ہماری حدود میں نہیں آتا۔ یہ واقعہ ضلع شرقی کے ایک کمرہ امتحان میں پیش آیا ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا، ’اس کے ساتھ ہی اس مقدمے کی تفتیش مزید سینئر پولیس اہلکار کو کرنی چاہیے‘۔
دوسری جانب پولیس ذرائع نے کہا ہے کہ نئی رپورٹ دو ہفتے میں جمع کرا دی جائے گی۔ انہوں نے کہا، ’رپورٹ چارج شیٹ کے طور پر سیشن جج کو پیش کی جائے گی۔ اس وقت تک لڑکا حراست میں رہے گا‘۔
اس پولیس اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا، ’بہت سے پولیس اہلکار اتنے پڑھے لکھے نہیں کہ قانونی ضوابط کو سمجھ سکیں اور ایسے مسئلے وقتاﹰ فوقتاﹰ سامنے آتے رہتے ہیں‘۔
خیال رہے کہ ہیومن رائٹس واچ نے پاکستانی حکام پر سمیع اللہ کی فوری رہائی کے لیے زور دے رکھا ہے۔ پاکستان میں روشن خیال سیاستدانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے متنازعہ قانون کو اکثر اوقات ذاتی دشمنیاں نکالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے اسلامی انتہاپسندی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
اس قانون پر بحث کا تازہ سلسلہ گزشتہ برس نومبر میں اس وقت شروع ہوا، جب پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ایک عدالت نے اسی نوعیت کے الزام پر ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے لیے سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔
رپورٹ: ندیم گِل/ خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی