جرمن چانسلر کے موبائل فون کی جاسوسی، تحقیقات روک دی گئیں
12 جون 2015جرمن شہر کارلسروہے میں قائم وفاقی دفترِ استغاثہ نے کہا کہ اُسے اب تک دستیاب ہونے والے ثبوت ناکافی ہیں اور اِن کی مدد سے چانسلر کے فون کی مبینہ جاسوسی کو عدالت میں ثابت کرنا مشکل ہو گا۔
ان تحقیقات کا آغاز گزشتہ سال جون میں ایسی اطلاعات سامنے آنے پر ہوا تھا کہ چانسلر انگیلا میرکل اپنا جو موبائل فون پارٹی سے متعلق معاملات کے لیے استعمال کرتی ہیں، اُس کی امریکی خفیہ ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی (NSA) کی جانب سے نگرانی کی جا رہی ہے۔ ان خبروں کے بعد انگیلا میرکل نے امریکی صدر باراک اوباما کو فون کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا اور اس واقعے نے جرمنی اور امریکا کے درمیان تعلقات پر شدید منفی اثر ڈالا تھا۔ چانسلر کو یہ فون اُن کی سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (CDU) کی جانب سے فراہم کیا گیا تھا۔
جرمن ہفت روزہ جریدے ڈیئر اشپیگل کی طرف سے یہ انکشاف 2013ء کے اواخر ہی میں سامنے آگیا تھا۔ اس جریدے نے این ایس اے کے ایک سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے منظرِ عام پر لائی جانے والی دستاویزات کے حوالے سے چانسلر کے فون کی نگرانی کی خبر اُس سال اکتوبر میں جاری کی تھی۔
گزشتہ سال دسمبر میں چیف پراسیکیوٹر ہارالڈ رانگے نے عندیہ دیا تھا کہ تحقیقات کا عمل زیادہ اچھے طریقے سے آگے نہیں بڑھ رہا اور کوئی ایسے شواہد نہیں مل رہے، جو عدالت میں جرمن چانسلر کے فون کی نگرانی کیے جانے کے الزام کو ثابت کر سکیں۔ استغاثہ کا یہی موقف اب بالآخر ان تحقیقات کو مکمل طور پر روک دیے جانے کا سبب بنا ہے۔
چیف پراسیکیوٹر رانگے کے مطابق اُن کے پاس اب تک جو ثبوت ہے، وہ این ایس اے کی ایک دستاویز کی شائع شُدہ نقل کی صورت میں ہے اور یہ کہ اس دستاویز کی اصل کاپی تک رسائی نہیں ہو سکی ہے۔ محض ایک نقل کو دیکھ کر کئی طرح کی تشریحات کی جا سکتی ہیں۔
رانگے کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے: ’’میڈیا میں اب تک ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے فراہم کردہ جو دستاویزات شائع ہوئی ہیں، اُن میں ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں، جو چانسلر کے فون کی نگرانی کے الزام کو عدالت میں درست ثابت کر سکیں۔‘‘
جرمن پراسیکیوٹرز کے مطابق اُنہیں تحقیقات جاری رکھنےکی صورت میں بھی کامیابی کے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ سنوڈن کی دستاویزات کی اشاعت میں معاون ثابت ہونے والے صحافی گواہی دینے سے انکار کرنے کا حق رکھتے ہیں اور سنوڈن نے اب تک کھلے عام جو بیان جاری کیے ہیں، اُن سے بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ سنوڈن کو میرکل کے فون کی نگرانی کے حوالے سے ذاتی طور پر کوئی معلومات حاصل تھیں۔
جرمن پراسیکیوٹرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’امریکی حکام کی جانب سے بھی جاری کردہ وہ تبصرہ، جس کے مطابق امریکی انٹیلیجنس کی جانب سے چانسلر کے موبائل کی نگرانی ’مزید نہیں کی جا رہی‘ یہ واضح کرنے کے لیے کافی نہیں کہ درحقیقت ہوا کیا ہے‘۔
پراسیکیوٹرز نے البتہ یہ کہا ہے کہ وہ امریکی اور برطانوی خفیہ اداروں کی جانب سے جرمنی کے خلاف دیگر شعبوں میں جاسوسی کے اُن الزامات کے حوالے سے تحقیقات بدستور جاری رکھیں گے، جن کا پتہ ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے منظرِ عام پر لائی گئی دستاویزات سے چلا ہے۔