خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقے: پر تشدد کارروائیوں کی نئی لہر
8 اپریل 2011صوبائی دارالحکومت پشاور میں پولیس اور سکیورٹی فورسز پر حملے آئے روز کا معمول بنتے جا رہے ہیں جبکہ سکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف مہمند ایجنسی میں اپنے آپریشن کا دوسرا مرحلہ بھی شروع کردیا ہے۔
مہمند ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کا دوسرا مرحلہ شروع کیے جانے کے ساتھ ساتھ پشاور کے قریب ہی خیبر ایجنسی کے قبائلی علاقے میں بھی تین کالعدم تنظیموں کے مابین دو ہفتوں سے جاری جھڑپوں میں اب تک نو افراد ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔
ایسے سرکاری دعووں کے حق میں صوبائی حکومت کے ترجمان اور وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کا کہنا ہے: ’’اگر ہم یہ کہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مکمل انتظامات کیے جا چکے ہیں، تو بھی یہ خطرہ ہے کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ہم نے اپنے اقدامات کو بھی اسی نوعیت کا رکھا ہوا ہے۔ اس لیے کہ ہم کسی بھی غفلت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘
صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں نیم فوجی اور فوجی دستے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ تاہم پہلے کی نسبت دہشت گردانہ واقعات میں کمی آئی ہے۔ دہشت گرد کمزور ہوئے ہیں اور ان کے حملوں میں بھی کمی آ چکی ہے۔
پاکستانی قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کل قریب ایک لاکھ 47 ہزار سکیورٹی اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود دارالحکومت پشاور سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع خیبر ایجنسی کے علاقے تیراہ میں تین کالعدم تنظیموں، جن میں لشکر اسلام اور انصار الاسلام نامی تنظیمیں بھی شامل ہیں، کے درمیان دو ہفتے سے لڑائی جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ لڑائی اس مقام پر قبضے کے لیے لڑی جا رہی ہے، جہاں سے افغانستان میں نیٹو فورسز کی سپلائی لائن کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
یہ تینوں گروپ ایک دوسرے کے خلاف بھاری ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال کر رہے ہیں۔ تازہ جھڑپوں میں نو افراد ہلاک جبکہ متعدد دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔ حکومتی ادارے اس لڑائی کو رکوانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے۔
دوسری جانب پشاور پولیس کو ایک مرتبہ پھر نشانہ بنایا گیا ہے۔ رحمان بابا کالونی میں پہلے سے نصب کردہ ایک بم پھٹنے سے ایک پولیس افسر اور اس کا محافظ شدید زخمی ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد ایک مرتبہ پھر دارالحکومت میں سکیورٹی انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں اور تمام داخلی اور خارجی راستوں پر اضافی اہلکار تعینات ہیں۔
دوسری طرف پشاور سے متصل ایک اور قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں بھی فوج نے عسکریت پسندوں کے خلاف اپنے آپریشن کا دوسرا مرحلہ شروع کردیا ہے۔ اس دوران جنگی طیاروں سے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا اور حکام نے اس کارروائی میں 50 سے زائد عسکریت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔
رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور
ادارت: مقبول ملک