شام اور عراق میں داعش کے جنگجو ’اب بھی موجود‘
27 دسمبر 2017انتہا پسندوں کی عسکری تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے خلاف عراق کے بعد شام نے بھی اپنی فتح کا اعلان کر رکھا ہے لیکن اس کے جہادی اب بھی سرگرم اور فعال خیال کیے جاتے ہیں۔ داعش کے خلاف امریکی قیادت میں قائم عسکری اتحاد نے بتایا ہے کہ یہ جہادی بعض مقامات مثال کے طور پر حکومتی دفاتر، لوگوں کے جمع ہونے کی جگہوں اور مذہبی مقامات پر مسلح حملوں اور پرتشدد کارروائیوں کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہیں۔
موصل کی لڑائی میں نو ہزار سے زائد عام شہری ہلاک ہوئے
کوئٹہ: گرجا گھر پر حملے کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ نے قبول کر لی
جرمنی: سینکڑوں ’خطرناک‘ اسلام پسندوں میں بچے اور خواتین بھی
افغان ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی صفوں میں غیر ملکی جہادی شامل
’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں کے خلاف شام اور عراق کی افواج کو بین الاقوامی اتحاد اور طاقتوں کی عسکری مدد کا سہارا لینا پڑا تھا۔ عراق میں ملکی فوج کو امریکی فوج کے ماہرین کی جنگی حکمت عملی سے متعلق معاونت حاصل رہی جب کہ شام میں بشار الاسد کی فوج کو روس کی عملی مدد حاصل رہی۔ روس کے جدید جنگی طیاروں کی بے پناہ بمباری اور حملوں نے داعش میں شامل جہادیوں کے قریب تمام ٹھکانے تباہ کرتے ہوئے انہیں کمزور اور بے بس کر دیا تھا۔
امریکی عسکری اتحاد نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو ایک ای میل میں بتایا کہ اس کے زیر اثر فوجی علاقے میں داعش کے فعال جنگجووں کی تعداد اب ایک ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے۔ اس بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ کئی جہادیوں کو شام اور عراق کے صحرائی علاقوں میں بھی تلاش کیا جا رہا ہے اور بعض جانیں بچا کر دوسرے ممالک کی جانب روانہ ہو چکے ہیں۔ رواں برس پانچ دسمبر کو اسی اتحاد نے ایسے باقی ماندہ جہادیوں کی یہ تعداد تین ہزار تک بتائی تھی۔
امریکی فوج کے اثر سے باہر مغربی شام کا وسیع علاقہ ہے، جہاں صدر بشار الاسد کی فوج نے روسی مدد کے ساتھ اپنا کنٹرول قائم کر لیا ہے۔ روس اب شامی فوج کی مدد سے ایک اور جہادی گروپ النصرہ فرنٹ کو کمزور کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس تناظر میں روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ جلد ہی النصرہ فرنٹ کے ٹھکانوں کو بھی تباہ کر دیا جائے گا۔ النصرہ فرنٹ کا تعلق دہشت گردی میں ملوث انٹرنیشنل نیٹ ورک القاعدہ سے بتایا جاتا ہے۔