مسلمانوں کو اپنا تشخص پہچاننے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے
4 جولائی 2016رمضان کا مہینہ صبر، امن، ضرورت مندوں کی مدد اور زندگی کا احترام کرنے کا درس دیتا ہے لیکن آج بہت سے مسلمان ممالک اسلام کی ان تعلیمات سے بہت دور نظر آتے ہیں۔ تین جولائی کو بغداد میں شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ایک حملے میں 150 سے زائد افراد کی ہلاکت مسلمان معاشروں میں شدت پسندی کے بڑھتے خطرے کو ظاہر کرتی ہے۔ 28 جون کو استنبول کے اتا ترک ایئرپورٹ، 30 جون کو کابل اور 2 جولائی کو ڈھاکہ میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمان برداشت اور پر امن رہنے کے بنیادی اسلامی اصولوں کی نفی کر رہے ہیں۔
مسلمان عالمی آبادی کا ںہ صرف ایک چوتھائی حصہ ہیں بلکہ دنیا میں غرباء کا بھی ایک بڑا حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مسلم ممالک خصوصی طور پر مشرق وسطیٰ میں مذہبی فرقہ واریت نے معاشروں کو توڑ پھوڑ دیا ہے۔ یہ انتہائی بد قسمتی ہے کہ آج مسلم دنیا کو سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی، بھوک، بدعنوانی، مذہبی فرقہ واریت اور خواتین پر تشدد کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق عراق کے 3.6 ملین بچے موت، جنسی تشدد، اغوا اور مسلح گروہوں میں جبری بھرتیوں کے خطرے سے دوچار ہیں۔ جنوبی سوڈان میں 4.8 ملین افراد کو آنے والے دنوں میں غذائی قلت کا سامنا ہو گا۔ 13 ملین شامی باشندوں کو فوری امداد کی ضرورت ہے جبکہ 5 ملین شامی شہری اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
خود احتسابی
پاکستان اور بنگلہ دیش کی صورتحال مشرق وسطیٰ سے مختلف نہیں ہے۔ دہشت گردانہ حملوں اور شدت پسندی میں تیزی سے اضافے نے جنوبی ایشائی ممالک کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اکثر مسلم ممالک میں ملکی قیادت کو جمہوری اقدار اور لوگوں کی خواہشات کی پرواہ نہیں رہی۔ ایسی صورتحال میں رمضان میں روزے رکھنا اورعید منانا ایک بے معنی سا عمل لگتا ہے۔
رمضان کے بعد عید جیسا مذہبی تہوار مناتے ہوئے بھی ہمیں خود احتسابی کرنا ہو گی۔ کچھ عرصہ قبل مسلم ممالک دنیا میں ثقافت اور مذہبی رواداری کے لیے جانے جاتے تھے۔ اب انہیں انتہا پسندی اورعسکریت پسندی کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ رمضان جیسا مقدس مہینہ بھی دہشت گردوں کو معصوم انسانوں کو ہلاک کرنے سے نہ روک سکا۔ میں امید کرتی ہوں کہ اس مرتبہ عید مسلمانوں کے لیے صرف ایک مذہبی تہوار نہیں بلکہ اپنے اندر جھانکنے اور اپنے رویوں کو تبدیل کرنے کا ایک موقع بنے گی۔