مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر ویٹو پاور چین کو بھی تشویش
21 نومبر 2012گزشتہ شب بھی غزہ سے فضائی حملوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں۔ کل منگل کو رات گئے تک کسی بھی وقت فائر بندی معاہدہ طے پا جانا تھا۔ اس توقع کا اظہار قاہرہ میں حماس کے ایک ترجمان نے کیا تھا تاہم اس کی تردید اسرائیل کے اُس بیان سے ہو گئی جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل معاہدے کے متن سے اتفاق نہیں کرتا۔ دریں اثناء امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن گزشتہ شب مشرق وسطیٰ پہنچیں، جہاں وہ اسرائیل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے بین گوریان سے سیدھے یروشلم گئیں۔ وہاں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات میں کلنٹن نے مشرق وسطیٰ کے اس دیرینہ تنازعے کے طویل المیعاد اور جامع حل پر زور دیا۔ انہوں نے کہا،’آئندہ دنوں میں امریکا اسرائیل اور مشرق وسطیٰ میں اپنے پارٹنرز کے ساتھ اشتراک عمل سے ایک ایسا حل تلاش کرنے کی کوشش کرے گا، جو اسرائیل کے عوام کو مضبوط تر تحفظ فراہم کرے اور جو غزہ میں انسانی صورتحال کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ پورے خطے کو جامع امن کے بھی نزدیک لا سکے‘۔۔
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے اس بیان کے جواب میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا کہنا تھا،’اگر سفارتی ذرائع سے ایک طویل مدتی حل کی صورت نکلتی ہے تو ہم اسے ترجیح دیں گے۔ وگرنہ اسرائیل اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اپنے شہریوں کو مکمل تحفظ فراہم کرے گا‘۔
دریں اثناء مشرق وسطیٰ کی تشویش ناک صورتحال پر بات کرنے کے لیے فلسطینی صدر محمود عباس کا ایک خصوصی وفد چین جا رہا ہے۔ بیجنگ میں وزارت خارجہ کی ایک ترجمان نے بتایا کہ فلسطینی پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری بسام الصالحی جمعرات کو ایک سہ روزہ دورہ پر بیجنگ پہنچ رہے ہیں۔ اس خاتون ترجمان نے کہا،’چین اسرائیل، فلسطین اور مشرق وسطٰی کے دیگر ممالک کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے اور اس نے تمام فریقوں خاص طور سے اسرائیل پر فوری فائر بندی کے لیے زور دیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل کو آٹھ روز سے جاری خونریزی کو مزید ہوا دینے کا سبب بننے والے حملوں سے پرہیز کرنا چاہیے‘۔
چین نے عرب لیگ اور دیگر ممالک کی جانب سے سلامتی کونسل سے کیے جانے والے اس مطالبے کی بھی حمایت کی ہے کہ اس کونسل کو غزہ کی تازہ ترین صورتحال کے حوالے سے ایک جامع اور سود مند پیغام جاری کرنا چاہیے۔
(km/aa(reuters,afp