نظریہ کہاں بھلا؟ بس اقتدار میں آنے کی کوشش ہے
25 نومبر 2023پاکستان میں سیاسی جماعتیں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اپنی اپنی حکمت عملی کو حتمی شکل دے رہی ہیں۔ زیادہ تر جماعتیں اعلیٰ جمہوری اور آئینی اقدار کی پاسداری کے بجائے ہر صورت بر سراقتدار آنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نون آج کل ملک بھر سے الیکٹیبلز کو ساتھ ملانے اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے میں مصروف ہے۔
اس ضمن میں وہ 'ووٹ کو عزت دو‘ جیسے بیانیے کو نظر انداز کرکے ایک مرتبہ پھر ایم کیو ایم سمیت اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھی جانے والی پارٹیوں سے اتحاد بنانے کی کوشش میں ہے۔
نون لیگ کی اونچی چھلانگ
ممتاز صحافی محمد عامر خاکوانی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ مسلم لیگ نون پنجاب میں حیرت انگیز طور پر کوئی اتحاد بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے بلکہ وہ صرف یوسف رضا گیلانی یا چند اکا دکا سیٹوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ تو شاید کر لے لیکن وہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی عدم موجودگی میں سیٹوں کا بڑا حصہ جیتنے کی متمنی ہے۔
عمران خان کی ضمانت کی درخواست قابل سماعت قرار
اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ: کیا اسٹیبلشمنٹ کے لیے جھٹکا ہے؟
عامر کے بقول مسلم لیگ نون خیبر پختونخوا میں جے یو آئی، اے این پی اور پرویز خٹک کے ساتھ انتخابی اشتراک کے لیے بات چیت کر رہی ہیں جبکہ کراچی میں ایم کیو ایم اور اندرون سندھ میں جے یو آئی کے ساتھ باہمی انتخابی تعاون کے فروغ کی متمنی ہے، ''بلوچستان میں باپ پارٹی پہلے ہی نون لیگ کے ساتھ ہے اس کے علاوہ جے یو آئی اور ڈاکٹڑ عبدالمالک بلوچ کی نیشنل پارٹی کے ساتھ بھی نون لیگ کا اتحاد ہونے کا امکان ہے۔‘‘
پیپلز پارٹی کچھ پیچھے ہے کیا؟
عامر خاکوانی کے مطابق پیپلز پارٹی اصل میں انتخابی سیاست میں کافی پیچھے ہے اور بلوچستان حاصل کرنے کا اس کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔ ان کے بقول باپ پارٹی بھی وعدہ وفا نہیں کر سکی جبکہ جنوبی پنجاب میں بھی اس کو حتمی برتری حاصل نہیں ہے اسے اندرون سندھ میں جی ڈٰی اے، نون لیگ اور جے یو آئی کے اتحاد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔''
عامر خاکوانی کے مطابق، ''پاکستان پیپلز پارٹی کو مقامی حکومتوں کے انتخابات میں کامیابی کے بعد کراچی سے بہتر انتخابی نتائج کی توقع تھی لیکن ایم کیو ایم اور نون لیگ کے اتحاد یا پھر پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے کسی ممکنہ اتحاد کے بعد پیپلز پارٹی کے لیے کراچی میں مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ اس کا زیادہ انحصار اندرون سندھ کے الیکٹیبلز پر ہی ہے۔‘‘
اگرچہ بلاول بھٹو آج کل خیبر پختونخوا میں بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں لیکن سیاسی مبصرین کے بقول ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ان جلسوں کی بدولت پیپلز پارٹی ووٹ بھی بٹور سکے گی؟
ایک سوال کے جواب میں عامر خاکوانی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ایک ایسی جماعت ہے جس کے ساتھ ابھی تک کسی نے انتخابی اتحاد نہیں بنایا ہے۔ ان کے بقول لوگ اس کا ٹکٹ لینے سے بھی ڈر رہے ہیں جبکہ اس کے بہت سے لیڈر اور ٹکٹ ہولڈرز اسے چھوڑ چکے ہیں۔
پی ٹی آئی کے ووٹ بنک کا کیا بنے گا؟
تاہم عام تاثر یہ ہے کہ تحریک انصاف کا ووٹ بنک ابھی موجود ہے، اس لیے اس جماعت کے کرتا دھرتا سوچ رہے ہیں کہ وہ الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے ( جس سے پارٹی کو نقصان ہو گا) یا پھر وہ ملک کے بہت سے حلقوں سے وکلا نمائندوں اور خواتین کو ٹکٹ جاری کریں گے، ''وکلا کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر انہیں عدالت سے ریلیف ملنے کا امکان ہے جبکہ خواتین کی راہ میں روڑے اٹکانے سے دنیا کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی طرف متوجہ کرنا آسان ہوگا۔‘‘
پی ٹی آئی: کون کون ساتھ ہے، کون کون چھوڑ گیا؟
انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم: الیکٹیبلز آگے ورکرز پیچھے
پاکستان تحریک انصاف میں ایک یہ تجویز بھی مبینہ طور پر زیر غور ہے کہ الیکشن والے دن پی ٹی آئی ورکرز بڑی تعداد میں پولنگ سٹیشن جا کر بیلٹ پیپروں پر متعدد بار سٹمپ لگا کر انہیں مسترد کروا دیں اور جب جیتنے والے امیدوار کے ووٹوں سے بھی زیادہ ووٹ مسترد شدہ نکلیں گے تو اس سے یہ تاثر بنے گا کی عوام نے ان انتخابات کو مسترد کر دیا ہے۔
بے یقینی کی فضا برقرار
یاد رہے کہ سن دو ہزار اٹھارہ میں نون لیگ کے امیدواروں نے دباؤ کی وجہ سے ایک ایسے وقت میں ٹکٹ واپس کر دیے تھے، جب نون لیگ کے لیے کسی دوسرے کو الیکشن لڑانا ممکن نہیں رہا تھا۔ پی ٹی آئی کو خوف ہے کہ کہیں اب کے بار ان کے ساتھ ایسا نہ ہو جائے، اس لیے وہ روایتی امیدواروں پر زیادہ توجہ مرکوز نہیں کر رہی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے بتایا کہ ایک طرف تو یہ بے یقینی ہے کہ الیکشن پتا نہیں ہوں گے یا نہیں تو دوسری طرف یہ یقین ہوتا جا رہا ہے کہ میچ فکس ہے اور پہلے سے یہ طے ہو گیا ہے کہ کس کو کتنی نشستیں ملیں گی۔
حفیظ اللہ نیازی کے مطابق ان حالات میں سیاسی پارٹیاں جو حکمت عملی بھی بنائیں گی، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اگر ان دونوں فریقوں کے تعلقات کا تعین نہ ہو سکا تو پھر کسی دوسری پارٹی کی سیاست کا تعین بھی نہیں ہو سکے گا۔
ان کے خیال میں کسی جماعت کے بر سر اقتدار آنے میں حکمت عملی سے بھی زیادہ کچھ اور عوامل کا عمل دخل ہے۔ نون لیگ کا دو ہزار تیرہ سے اٹھارہ تک کا دور شاندار تھا، اس کی مقبولیت بھی تھی لیکن عمران خان الیکشن جیت گئے۔ اب عمران خان کی کی مقبولیت ہے لیکن الیکٹیبلز کہیں اور جا رہے ہیں۔ حفیظ اللہ نیازی کے خیال میں پیپلز پارٹی کو 'کٹ ٹو سائز‘ کیا جا رہا ہے۔