پاکستان سے انسانوں کی اسمگلنگ سالانہ ایک ارب ڈالر کا کاروبار
30 جولائی 2017عالمی سطح پر انسانوں کی اسمگلنگ کے اس کاروبار کا شکار زیادہ تر خواتین اور بچے بنتے ہیں، جن کا بعد میں جرائم پیشہ گروہوں کی طرف سے یا تو جنسی استحصال کیا جاتا ہے یا پھر جنہیں غلاموں کی طرح جبری مشقت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس ناجائز کاروبار کی بھرپور مذمت بھی کی جاتی ہے اور اس سلسلے میں شعور کی بیداری کے لیے ہر سال تیس جولائی کو اقوام متحدہ کی طرف سے دنیا بھر میں انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ بنیادی طور پر دو طریقوں سے کی جاتی ہے۔ ایک زمینی اور دوسری فضائی راستوں سے۔ زمینی راستے سے اکثر پاکستان کی ایران کے ساتھ انتہائی طویل سرحد انسانوں کے اسمگلروں کے لیے بہترین روٹ ثابت ہوتی ہے۔
جرمنی سے مہاجرین کی ملک بدری: ’صرف رقم کا لالچ کافی نہیں‘
مہاجرین کی روک تھام، اٹلی کے لیے 54 ملین ڈالر کی امداد
نئی ٹیکنالوجی: اب مہاجرین دوہری مراعات نہیں لے پائیں گے
اس سلسلے میں پاکستان کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور معروف قانون دان طارق محمود نے ڈوئچے ویلے کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی شہری اکثر اس لیے بیرون ملک اسمگل ہونا چاہتے ہیں کہ وہ مقامی طور پر اپنے لیے روزگار کے بہتر مواقع سے محروم ہوتے ہیں اور ان حقائق سے بھی لاعلم ہوتے ہیں، جن کا بیرون ملک اسمگل کیے جانے والے افراد کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
طارق محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سادگی اور حقائق سے لا علمی کے باعث اکثر افراد جرائم پیشہ گروپوں اور ایجنٹوں کے ذریعے اچھے مستقبل کے لیے بیرون ملک پہنچا دیے جانے کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ غیر قانونی سرحدی راہداریوں اور غیر محفوظ سمندری راستوں کے ذریعے اسمگلنگ کے دوران بعض اوقات ایسے افراد اپنی جانوں سے ہاتھ بھی دھو بیٹھتے ہیں، حالانکہ انسانوں کی اسمگلنگ ایک ایسا سنگین جرم ہے، جس کے مرتکب افراد کو چودہ سال تک قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔‘‘
اسی بارے میں ممتاز ماہر قانون علی احمد کرد نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسانوں کے اسمگلر عام طور پرسادہ لوح افراد کو امریکا، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں داخلے کے خواب دکھا کر مال بٹورتے ہیں اور کشتیوں میں بٹھا کر یونان، فرانس، ہالینڈ اور نہ جانے کہاں کہاں لے جانے کے جھانسے دیتے ہیں۔ ’’اس طرح وہ ایسے افراد کی عمر بھر کی کمائی لوٹ لیتے ہیں اور بہت سے لوگ تو یورپ جانے کے شوق میں موت کے منہ میں بھی چلے جاتے ہیں۔‘‘
پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ کی سزا کیا ہے؟ اس بارے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سینیئر وکیل انور قاضی نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’انسانوں کی اسمگلنگ ایک انتہائی گھناؤنا جرم ہے۔ پاکستان میں اس کی زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید ہے لیکن یہ جرم اتنا سنگین ہے کہ اس کی سزا میرے خیال میں پھانسی ہونا چاہیے۔‘‘
مہاجرین کا راستہ کیسے روکا جائے؟ اٹلی کا نیا منصوبہ
مہاجرین کے لیے سرحدیں بند نہیں کریں گے، اطالوی وزیر اعظم
مسلم مہاجرین کا داخلہ روکے رکھیں گے، ہنگری کے وزیراعظم
منظم جرائم اور انسانوں کی اسمگلنگ سے متعلقہ امور پر گہری نظر رکھنے والے پنجاب پولیس کے ایک سینیئر افسر کے مطابق انہیں پاکستان میں ہیومن ٹریفکنگ کے حتمی اعداد و شمار تو معلوم نہیں کیونکہ ایسے واقعات ہمیشہ سارے ہی رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ لیکن پاکستان سے انسانوں کی اسمگلنگ کے واقعات میں ماضی کی نسبت کمی ہوئی ہے، جس کے بڑے اسباب میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی بہتر کارکردگی، امیگریشن نظام میں بہتری اور جدید کمپیوٹرائزڈ سسٹم شامل ہیں۔ پنجاب پولیس کے اس اعلیٰ اہلکار نے یہ بات اپنی شناخت ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر بتائی۔
اس رائے کے برعکس ایک پرائیویٹ اسکول کی پرنسپل سائرہ جبیں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسانوں کے اسمگلروں کو روکنے کے لیے جو اقدامات کیے جاتے ہیں، وہ بہت مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔ انہوں نے کہا، ’’پاکستان میں ایسے ایجنٹ دس سے پندرہ ہزار ڈالر تک کے برابر رقم لے کر لوگوں کو گارنٹی کے ساتھ یورپ پہنچا دیتے ہیں۔ بہتر مستقبل کے خواہش مند ایسے شہریوں کو پہلے بلوچستان کے راستے ایران پہنچایا جاتا ہے، اور پھر وہاں سے ترکی کے راستے یونان اور دیگر یورپی ممالک میں۔ ہمارے کتنے ہی جاننے والے اسی طرح گئے ہیں۔ تو پھر کون سا قانون اور کون سا نظام؟ اس کے علاوہ بے شمار لوگوں کو یہ اسمگلر بیچ بھی دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی تک تو بند نہیں ہوا۔‘‘
مہاجر لڑکیوں کو جسم فروشی پر مجبور کیا جا سکتا ہے، آئی او ایم
جرمنی میں پاکستانی، افغان مہاجرین: ’کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں‘
مہاجرین کو روکنے کی خاطر مہاجرت مخالف گروپ بھی سمندر میں
اس پاکستانی خاتون ماہر تعلیم نے مزید کہا کہ ایف آئی اے کا انسانوں کی اسمگلنگ کی روک تھام کا سیل عرصہ پہلے قائم کیا گیا تھا، لیکن یہ سیل آج تک مطلوبہ نتائج مہیا کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس کی کارکردگی زیادہ تر بس کاغذی نوعیت کی ہے۔
غیر قانونی طریقے سے یورپ پہنچنے کی ناکام کوشش کرنے والے کراچی کے ایک شہری وقاص احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس نے اپنے والد کی پینشن کی ساری رقم ارشد نامی ایک ایجنٹ کو دے دی، جس نے وقاص کو یورپ پہنچانا تھا۔ وقاص احمد نے کہا، ’’اس ایجنٹ نے کہا کہ پہلے ہم دبئی جائیں گے اور وہاں سے یورپ کا ویزا آسانی سے مل جائے گا۔ لیکن میرے ساتھ دھوکا ہوا۔ وہ ایجنٹ رقم لے کر راتوں رات غائب ہو گیا۔ میں کراچی ایئر پورٹ پر کھڑا دبئی جانے کا انتظار ہی کرتا رہ گیا۔ پاکستان کے عام شہریوں کو ایسے دھوکے بازوں سے بچنا چاہیے۔ اب میں کرائے کی ٹیکسی چلاتا ہوں اور وہ لاپتہ ہو جانے والا ایجنٹ ارشد مجھے کبھی دوبارہ نظر نہیں آیا۔‘‘
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے ایک پرائیویٹ لاء کالج کے پروفیسر خورشید احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف سیمینارز اور تقریبات تو منعقد ہوں گی، لیکن یہ مسئلہ اس طرح حل ہونے والا نہیں۔ یہ اسمگلر لوگوں کی جانوں کی پرواہ کیے بغیر انہیں پر خطر زمینی اور سمندری راستوں سے غیر قانونی طور پر سرحدیں پار کروانےکی کوششیں کرتے ہیں۔ اس دوران بہت سے لوگ بارڈر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بنتے ہیں یا سمندر میں ڈوب جاتے ہیں اور ان کے اہل خانہ ان کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔ ’’بہت سے واقعات میں تو لوگوں کو اپنے پیاروں کی لاشیں تک نہیں ملتیں۔‘‘
جرمنی میں افغان پناہ گزینوں کی درخواستیں، فیصلے روک دیے گئے
کس یورپی ملک میں زیادہ پاکستانی مہاجرین کو پناہ ملی؟
عالمی سطح پر انسانوں کی اسمگلنگ کتنا بڑا مسئلہ ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کی روک تھام کے دفتر (یو این او ڈی سی) کے مطابق سن 2013ء میں صرف پاکستان میں سرگرم جرائم پیشہ گروہوں نے انسانوں کی اسمگلنگ کے ذریعے 927 ملین ڈالر کمائے تھے۔ پاکستان سے انسانوں کی اسمگلنگ کے لیے صوبہ بلوچستان میں اکثر چمن، گلستان، نوشکی، چاغی، پنجگور اور تربت کے علاقے استعمال کیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ کا سرکاری سطح پر مرکزی ریکارڈ ایف آئی اے کا ادارہ رکھتا ہے۔ اس ادارے کی ’ریڈ بُک‘ کے مطابق پاکستان میں 2014ء میں انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں کی تعداد 141 تھی، جن میں سے اکثریت کا تعلق گجرات اور گوجرانوالہ سے تھا جبکہ باقی گروہوں میں سے بہت سے سیالکوٹ، راولپنڈی اور منڈی بہاؤالدین جیسے شہروں اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سرگرم تھے۔