1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں آزادیء اظہار خطرات کی زد میں

4 مارچ 2011

پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی نے جہاں انسانی جانوں کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں، وہاں اسی وجہ سے آزادیء اظہار کو بھی سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/10TWg

خاص طور پر متنازعہ مذہبی موضوعات پر اظہار خیال کرنے والے صحافیوں کو بعض دینی اور مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کی طرف سے دھمکیوں کا سامنا ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کے قتل کے بعد پاکستانی صحافیوں پر دباؤ میں کافی اضافہ ہو گیا ہے۔

پاکستان کے معروف صحافی حامد میر کہتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ معروضی انداز میں تجزیہ کرنے والے صحافیوں سے اگر مذہبی جماعتیں ناراض ہو جائیں تو پھر ان صحافیوں کے ساتھ ان جماعتوں کا رویہ انتہا پسندانہ ہو جاتا ہے۔ خود حامد میر کے ایک پروگرام سے ناراض ہو کر جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ نے پچھلے سال ان کے خلاف نہ صرف احتجاجی مظاہرے کیے تھے بلکہ ان کو قتل کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔

سلمان تاثیر کے قتل کے بعد بھی ایک ٹی وی پروگرام میں اس قتل کی مذمت کرنے کی پاداش میں انہیں ہراساں کیا گیا۔ انہی دنوں پاکستان کے ایک معروف کالم نگار کو ایک فرقہ وارانہ تنظیم کی طرف سے مسلسل دھمکیوں کے بعد یہ کہنا پڑا کہ اگر ان پر دباؤ جاری رہا تو وہ اپنی کالم نگاری ترک کر دیں گے۔

حامد میر کے خیال میں پاکستانی معاشرے میں مجموعی طور پر برداشت کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے بقول دکھ کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں میڈیا کو مذہبی جماعتوں کی طرف سے ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کی طرف سے بھی دھونس اور دھمکیاں ملتی ہیں، جو معاشرے میں لبرل اور روشن خیال تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کی رائے میں عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ جیسی سیکولر جماعتیں جب صحافیوں سے ناراض ہوتی ہیں تو ان کا رویہ بھی مذہبی جماعتوں کے رویے سے مختلف نہیں ہوتا۔

Buddhastatuen in Bamiyan Flash-Galerie Taliban Krieger
طالبان کی جانب سے آئے روز دہشتگردانہ کارروائیاں جاری ہیںتصویر: AP

یہ بات قابل ذکر ہے کہ سن دو ہزار دس میں پاکستان میں کل اٹھارہ صحافی ہلاک کر دیے گئے تھے جبکہ دو ہزار گیارہ کے پہلے دو مہینوں میں بھی پاکستان میں تین صحافی پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنی جان دے چکے ہیں۔

حامد میر کے مطابق پاکستان میں قلم اور کیمرے کو گولی اور بم کا سامنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ حکومت جو اپنے وزراء اور گورنروں تک کو تحفظ نہیں دے سکتی، وہ صحافیوں کو کیا تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔ ان کے بقول ایک عام پاکستانی صحافی کے پاس اب دو ہی راستے بچے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ ملک سے باہر جا کر اپنے وطن کے بارے میں سچ لکھے اور دوسرے یہ کہ امن پسند پاکستانی عوام کی اکثریت کے ساتھ کھڑے ہو کر بڑے دلائل کے ساتھ انتہا پسندانہ رویوں کا مقابلہ کرے۔ حامد میر کے بقول فرار کی بجائے مقابلے کا راستہ بہتر ہے، جو زیادہ پر خطر بھی ہے۔

ایک انگریزی روزنامے کے لیے مذہبی جماعتوں سے متعلق رپورٹنگ کرنے والے کرامت بھٹی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ مذہبی موضوعات کی رپورٹنگ کرنا بڑا پر خطر ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق مذہبی گروپوں (جن میں فرقہ وارانہ جماعتیں، کالعدم تنظیمیں اور عسکریت پسند گروہ سبھی شامل ہیں) سے متعلق رپورٹنگ کے دوران بعض اوقات آپ کو ان لوگوں کی مخالفت بھی مول لینا پڑ سکتی ہے، جو جی ایچ کیو پر حملہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں بعض اوقات ایک مذہبی لیڈر دوسرے کے خلاف ایک اشتعال انگیز بیان جاری کرتا ہے تو اس بیان کو شائع کرنا یا نہ کرنا، دونوں ہی صورتیں رپورٹر کے لیے مشکلات کا باعث ہو سکتی ہیں۔

کرامت بھٹی کے مطابق ایک ایسے رپورٹر کے لیے مختلف مذہبی گروپوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناراضگی سے بچ کر پیشہ ورانہ رپورٹنگ کرنا کافی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ذرا سی بے احتیاطی کسی جان لیوا فتوے یا گولی کی وجہ بن سکتی ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں