پاکستان کے نگران وزیر اعظم کے لیے دوڑ میں کون کون شامل
25 مئی 2018اس وقت ملک کی کشیدہ سیاسی صورتحال کے باعث وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کسی ایک امیدوار کے نام پر متفق ہونے میں ناکام رہے ہیں اور اب یہ معاملہ خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا جا رہا ہے۔
مسلم لیگ ن
حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی ترجیح یہ ہے کہ عبوری وزیر اعظم ایسا ہو، جو انتخابات میں اس پارٹی کے انتخابی مفادات کو کوئی نقصان نہ پہنچنے دے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کو یہ خدشہ بھی ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اگر سزا ہوئی اور ان کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا گیا، تو نگران وزیر اعظم کم از کم اس پیش رفت کے بعد کے قانونی مراحل میں نواز شریف کی طرفداری کر سکے۔ مثال کے طور پر سزا کے بعد ہائی کورٹ میں اپیل کر کے نواز شریف کی ممکنہ گرفتاری کو رکوایا یا التوا میں ڈالا جا سکے۔
تحریک انصاف
دوسری طرف انتخابی عمل میں شریک دوسری بڑی سیاسی پارٹی پاکستان تحریک انصاف ایسا نگران وزیر اعظم چاہتی ہے جو انتخابی عمل میں کسی بھی ممکنہ رکاوٹ کو روکتے ہوئے اس کے تسلسل اور کامیاب تکمیل کو یقینی بنا سکے۔ عمران خان کی تحریک انصاف ایسا اس لیے چاہتی ہے کہ اسے پورا یقین ہے کہ وہ اپنی طویل سیاسی جدوجہد میں پہلی بار ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے، جہاں اس کی جیت کے امکانات آج اتنے زیادہ ہیں کہ جتنے پہلے کبھی نہیں تھے۔ ساتھ ہی نواز شریف اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کا سب سے بڑا حریف ہونے کی وجہ سے عمران خان یہ بھی چاہتے ہیں کہ نگران وزیر اعظم ایسا ہو، جو ممکنہ عوامی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے نواز شریف کو عدالت کی طرف سے سزا سنائے جانے کے بعد اس سزا پر عمل درآمد بھی کروا سکے۔
پیپلز پارٹی
پاکستان میں اگلے پارلیمانی انتخابی معرکے میں شامل تیسری بڑی جماعت سابق صدر آصف زرداری اور ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی ہے، جس کی پارٹی مفادات کے لحاظ سے پہلی ترجیح یہ ہے کہ نگران وزیر اعظم ایسا ہو جو نہ صرف انتخابی عمل کو التوا کا شکار ہونے سے بچا سکے بلکہ پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایسا کردار بھی ادا کر سکے جس کی مدد سے صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی ممکنہ فتح کے امکانات بھی متاثر نہ ہوں۔
کون کس کے ساتھ ہے؟
پاکستان میں تینوں بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان ملسم لیگ ن، تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی نے عبوری وزیر اعظم کے عہدے کے لیے جو نام تجویز کیے ہیں، ان میں سابق جج حضرات بھی شامل ہیں، ماضی کے بیوروکریٹ بھی اور اقتصادی ماہرین بھی۔
اس وقت حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے تجویز کردہ تین ناموں میں سے پہلا نام تصدق حسین جیلانی کا ہے، جو ماضی قریب میں ملک کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔
خاتون ماہر اقتصادیات شمشاد اختر سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پہلی خاتون گورنر مقرر کی گئی تھیں۔ وہ انتظامی اور معاشی امور کی ماہر مانی جاتی ہیں۔
ذکا اشرف کو سابق صدر آصف علی زرداری نے پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ انہوں نے اس عہدے پر تین سال تک خدمات انجام دی تھیں۔ ذکا اشرف پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی تھے اور عبوری سربراہ حکومت کے عہدے کے لیے نامزدگی کے پیش نظر پارٹی میں اپنی ذمے داریوں سے صرف دو ہفتے قبل مستعفی ہوئے تھے۔ وہ آصف علی زرداری کے قریب جانے جاتے ہیں اور نگران وزیر اعظم کے طور پر پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔
جلیل عباس جیلانی ایک منجھے ہوئے سفارت کار ہیں، جو ایک اعلیٰ عہدے پر فائز رہے ہیں۔ وہ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر بھی رہ چکے ہیں اور امریکا میں پاکستان کے سفیر بھی۔
سلیم عباس جیلانی بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ ہیں اور ایک معروف سیاستدان ہیں۔ وہ جلیل عباس جیلانی کے کزن ہیں اور سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خاندان سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔
عشرت حسین پاکستانی اسٹیٹ بینک کے گورنربھی رہ چکے ہیں اور مشیر خزانہ کے عہدے پر بھی کام کر چکے ہیں۔ ان کا شمار پاکستان کے کامیاب ترین بیوروکریٹس میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک وجہ شہرت ایک ایسی تفصیلی رپورٹ کی تیاری بھی تھی، جس میں پاکستانی نوکر شاہی میں دور رس اصلاحات تجویز کی گئی تھیں۔
عبدالرزاق داؤد تحریک انصاف یا پی ٹی آئی کے نامزد کردہ ہیں۔ وہ سابق صدر پرویز مشرف کی دو ہزار دو میں قائم کردہ نگران حکومت میں وزیر خزانہ بھی تھے۔ وہ ایک معروف اور کامیاب بزنس مین بھی ہیں مگر بطور نگران وزیر اعظم وہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔
ملیحہ لودھی کی پہچان ایک کامیاب صحافی اور سفارت کار کے طور پر رہی ہے۔ وہ بھارت اور امریکا میں پاکستان کی سفیر رہ چکی ہیں اور اس وقت اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر ہیں۔ ملیحہ لودھی اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو قبول نہیں ہیں۔
پاکستان کا اگلا وزیر اعظم صرف ایک نگران حکومتی سربراہ ہی نہیں ہو گا بلکہ اسے اگلے پارلیمانی الیکشن کے نتائج کے حوالے سے اس بات کو بھی یقینی بنانا ہو گا کہ عوامی رائے دہی کی قانونی حیثیت مسلمہ اور غیر مشکوک ہو اور اس کے نتائج سب کے لیے قابل قبول ہوں۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کام ایک بہت بھاری فریضہ نظر آتا ہے۔
اگر نام پر اتفاق نہ ہوا تو؟
یوں تو پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہر دو منتخب جمہوری حکومتوں کی پارلیمانی مدتوں کے درمیانی عرصے میں ایک قلیل المدتی نگران حکومت قائم کی جاتی ہے۔ تاہم حالیہ برسوں کے دوران سیاسی اصلاحات کے نتیجے میں نگران وزیر اعظم کے انتخاب کا عمل مزید نتیجہ خیز بنایا جا چکا ہے۔ مروجہ قانون کی رو سے نگران وزیر اعظم کا انتخاب پہلے مرحلے میں وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے درمیان تین تین ممکنہ امیدواروں سے متعلق تبادلہ خیال کی صورت میں کسی ایک نام پر اتفاق رائے سے ہوتا ہے۔ اگر اطراف کی جانب سے پیش کردہ کل چھ امیدواروں میں سے کسی بھی امیدوار کے نام پر اتفاق نہ ہو سکے تو یہ نام فیصلے کے لیے قومی اسمبلی کے اسپیکر کی بنائی ہوئی ایک آٹھ رکنی کمیٹی کو بھیج دیے جاتے ہیں۔ یہ کمیٹی حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مساوی تعداد میں ارکان پارلیمان پر مشتمل ہوتی ہے۔ اگر یہ کمیٹی بھی کسی امیدوار کے نام پر متفق نہ ہو سکے تو پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان انہی چھ مجوزہ شخصیات میں سے کسی ایک کو نگران وزیر اعظم بنانے کا باقاعدہ اعلان کر دیتا ہے۔
سب سے زیادہ امکانات
پاکستان کے سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کاروں کو کافی زیادہ توقع ہے کہ تصدق حسین جیلانی ممکنہ طور پر نگران وزیر اعظم بن جائیں گے۔ اس لیے کہ آپس میں شدید نوعیت کے سیاسی اختلافات کے باوجود تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن دونوں نے ہی ان کا نام اپنی اپنی فہرستوں میں سب سے ترجیحی امیدوار کے طور پر شامل کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے بھی وہ اس وجہ سے قابل قبول ہیں کہ ان کا تعلق سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خاندان سے ہے۔