1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغان سرحدی دیہات میں دیوار برلن جیسی تقسیم کی تیاریاں

مقبول ملک روئٹرز
10 اکتوبر 2017

پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہت سے سرحدی دیہات کے ہزاروں باسیوں کو ممکنہ طور پر دیوار برلن کی طرح کی جغرافیائی تقسیم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان پختون قبائلی باشندوں نے وہاں موجود سرحد عملاﹰ کبھی محسوس نہیں کی تھی۔

https://p.dw.com/p/2lZ9W
ڈیورنڈ لائن پر پاکستانی سرحد کے قریب تعینات افغان فوجی دستےتصویر: picture-alliance/dpa/G. Habibi

پاکستانی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور اسی صوبے کے افغان سرحد کے قریب واقع پاکستانی شہر چمن سے منگل دس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین سرحدی دیہات کے رہنے والے یہ ہزارہا قبائلی باشندے کئی عشروں سے عملی طور پر اس نظر نہ آنے والی لکیر کو نظر انداز ہی کرتے آئے ہیں، جو پاک افغان سرحد کہلاتی ہے۔

اب لیکن انہی باشندوں کو جغرافیائی طور پر جرمنی میں ماضی کی دیوار برلن کی طرح کی تقسیم کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے، جو ہمسایوں اور دیرینہ ہمسائیگی کو کاٹ کر رکھ دے گی۔

افغانستان ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب مشترکه آپریشن پر راضی

چمن کی پاک افغان سرحدی گزرگاہ دوبارہ کھول دی گئی

’طورخم سرحد پر سکیورٹی گیٹ پیر سے فعال ہو جائے گا‘

پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کہلانے والی موجودہ متنازعہ سرحد کا تعین برطانوی نوآبادیاتی دور میں 1893ء میں کیا گیا تھا۔ پاکستان، جسے مجموعی طور پر اپنے ہاں اور افغان سرحد سے ملنے والے قبائلی علاقوں اور بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سرحدی صوبوں میں اسلام پسند عسکریت پسندوں کے خونریز حملوں کا سامنا ہے، اپنے سرحدی علاقے میں ایک ایسی باڑ لگا رہا ہے، جس کا مقصد شدت پسندوں کو افغانستان سے سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔

Chaman Pakistanisch-afghanische Grenze geschlossen
پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن کی سرحدی گزرگاہ، جو سلامتی وجوہات کے باعث کئی بار بند کی جا چکی ہےتصویر: picture alliance/ZUMAPRESS.com

دونوں ممالک کی مشترکہ سرحد قریب ڈھائی ہزار کلومیٹر یا ڈیڑھ ہزار میل طویل ہے۔ کابل حکومت اس باڑ کی تعمیر کے خلاف ہے ۔ یہ باڑ ’منقسم دیہات‘ کہلانے والے ان سرحدی علاقوں کے عین وسط سے گزرے گی، جہاں کسی ایک ملک کی شہریت کے ثبوت کے طور پر بہت کم باشندوں کے پاس اپنے اپنے ملک کے سرکاری طور پر جاری کردہ شناختی کارڈ یا پاسپورٹ موجود ہیں۔

یہ ایسے علاقے ہیں، جہاں مقامی باشندوں کے لیے اپنے اپنے ملک سے تعلق کی نسبت یہ بات کہیں زیادہ اہم ہوتی ہے کہ وہ پشتونوں کے طور پر آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ قبائلی یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور ان مقامی روایات کا احترام بھی جو صدیوں پرانی ہیں۔

’سخت پیغام‘ لے کر دو امریکی وزیر اسی ماہ پاکستان جائیں گے

پاکستان کے ساتھ ’مزید ایک مرتبہ‘ مل کر کام کرنے کی کوشش کریں گے، امریکا

’بھارتی فوجی بوٹوں کی چاپ افغان سرزمین پر سنائی نہیں دے گی‘

جنوب مغربی پاکستانی صوبے بلوچستان کے ضلع چمن میں، جہاں دونوں ممالک کے مابین ایک بہت زیادہ استعمال ہونے والی انتہائی اہم سرحدی گزرگاہ بھی واقع ہے، ایسے کم از کم سات دیہات کی نشاندہی کی جا چکی ہے، جہاں سے یہ باڑ گزرے گی۔ ایسے کئی دیگر منقسم دیہات مزید شمال کی طرف ان پاکستانی سرحدی قبائلی علاقوں میں واقع ہیں، جنہیں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے یا ’فاٹا‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

’پاکستانی فوج کے سربراہ کا دورہ کابل بہت مثبت قدم تھا‘ معید یوسف

روئٹرز کے مطابق بلوچستان میں پاکستانی حکام اب ان منقسم دیہات کے رہنے والے پاکستانی شہریوں کو اس باڑ کے اندر پاکستانی علاقوں میں منتقل کرنے کی تیاریوں میں ہیں ۔ اس بارے میں پاکستانی حکام کا موقف یہ ہے کہ سلامتی سے متعلق خدشات ان تحفظات سے کہیں زیادہ اہم ہیں کہ یہ باڑ بہت سی مقامی برادریوں کو تقسیم کر دے گی۔

اس بارے میں چمن میں پاکستان کی نیم فوجی فرنٹیئر کور کے مقامی کمانڈر کرنل محمد عثمان نے روئٹرز کو بتایا، ’’سرحدی دیوار تو برلن میں بھی تھی۔ میکسیکو میں بھی ہے۔ دنیا میں ہر جگہ، تو پھر یہی دیوار یا باڑ پاکستان اور افغانستان کے مابین کیوں نہیں بن سکتی؟‘‘ کرنل عثمان نے کہا، ’’لکیر کے اس طرف مقامی قبائلی باشندوں کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ جہاں وہ ہیں، وہ پاکستان ہے اور دوسری طرف افغانستان ہے۔‘‘

روئٹرز نے مزید لکھا ہے کہ اس سرحدی باڑ کی تعمیر کے بارے میں شکوک و شبہات کے اظہار کی بھی کمی نہیں۔ پاکستان نے قریب ایک دہائی قبل بھی ایسی ہی ایک باڑ تعمیر کرنے کی کوشش کی تھی، جو ناکام رہی تھی۔

امریکی وزیر دفاع کا بھارتی دورہ، افغانستان اہم موضوع

افغان صدر کی پاکستان کو امن مذاکرات کی دعوت

پاکستان کی طرف سے امریکا کے لیے سخت پالیسی، نتیجہ کیا ہو گا؟

بہت سے مقامی باشندوں اور ماہرین کو ابھی بھی شبہ ہے کہ آیا ایسی کسی باڑ کی تعمیر یا کسی بھی دوسرے ذریعے سے بہت طویل پاک افغان سرحد کے آر پار شدت پسندوں کی آمد و رفت کو روکتے ہوئے مکمل سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

پاکستان عسکری ذرائع کے مطابق اس باڑ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اسلام آباد حکومت دونوں ممالک کے مابین قریب 100 نئی سرحدی چوکیاں بھی قائم کرنا چاہتی ہے اور ان چوکیوں پر فرائض کی انجام دہی کے لیے قریب 30 ہزار نئے فوجی بھی بھرتی کیے جا رہے ہیں۔

’پاکستان اب طالبان پر اثر و رسوخ کھو چکا ہے‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں