کابل میں مولانا فضل الرحمان کے خلاف مظاہره
8 جنوری 2015یه افراد ان اطلاعات کے بعد ہوائی اڈے جانے والی شاہراه پر جمع ہوئے که فضل الرحمان پاکستانی سیاسی جماعتوں کے ایک وفد کے ہمراه صدر اشرف غنی کی دعوت پر افغانستان کا دوره کرنے کے لیے پہنچے ہیں۔ صدر غنی نے گزشته ہفتے ایک رسمی دعوت نامے کے تحت پاکستانی سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کو اس دو روزه دورے کی دعوت دی تهی۔
سرکاری ذرائع کے مطابق اس وفد میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراه اسفندیار ولی خان، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی، اور سابق وفاقی وزیر آفتاب خان شیرپاؤ بھی شامل ہیں۔
تاریخی تناظر میں پاکستان کی موجوده پشتون قوم پرست سیاسی جماعتوں کے کابل حکومت سے دیرینه تعلقات رہے ہیں اور یه یہان کے عوام، بالخصوص روشن فکر حلقوں میں بھی خاصی مقبول ہیں۔ اس کے برعکس جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی مذہبی جماعتوں اور ان کی موجوده قیادت کی مقبولیت انتہائی کم ہے۔
"مرگ با حامیان طالبان!" (طالبان کے حامیوں پر موت)، "جنگ نه سوله" (جنگ نہیں امن) کے نعرے لگانے والے مظاہرین نے افغان حکومت سے مطالبه کیا که طالبان کی حمایت کرنے والے فضل الرحمان کی افغانستان آمد پر مستقل پابندی عائد کی جائے. ياد رہے که جمعيت علمائے اسلام کے قائد متعد بار افغانستان ميں طالبان کی سرگرميوں کو جائز قرار دے چکے ہيں۔
نئے افغان صدر اشرف غنی اور پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے سردمہری کے شکار دو طرفه تعلقات کو نئی ڈگر پر ڈالنے کا عزم ظاہر کر رکھا ہے۔ اشرف غنی کو ان کے دورهء پاکستان کے موقع پر پاکستانی فوج کی جانب سے غیر معمولی انداز میں راول پنڈی میں خوش آمدید کہا گیا تها۔ بری فوج کے سربراه جنرل راحیل شریف اور خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراه جنرل راحیل اختر متعدد بار کابل کا دوره کرچکے ہیں، جس دوران سرکاری ذرائع کے مطابق انسداد دہشت گردی سے متلعق امور پر معلومات کا تبادله کیا گیا۔
آج کابل کے ہوائی اڈے پر مظاہره کرنے والے البته اب بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی نیّت پر شاکی ہیں۔ مظاہرے میں شریک صفت الله زواک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا که کابل حکومت کو کسی بھی صورت میں پاکستان پر اندھا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ "پاکستان ہمارے ساتھ کبهی بهی مخلص نہیں رہا۔ ہمیں مزید دهوکا نہیں کهانا چاہیے۔"