احتجاجی مظاہرہ کرنا دہشت گردی نہیں ہے، بھارتی عدالت
15 جون 2021دہلی ہائی کورٹ نے اسٹوڈنٹ لیڈروں آصف اقبال تنہا، دیوانگنا کالیتا اور نتاشا ناروال کو آج ضمانت پر رہا کر دیا۔ یہ طلبا متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف دہلی اور ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں پیش پیش تھے۔ پولیس نے ان کے خلاف گزشتہ برس دہلی میں ہونے والے فسادات کو بھڑکانے اور دیگر الزامات عائد کرتے ہوئے گرفتار کر لیا تھا۔ ان تینوں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات لگائی گئی تھیں۔
دہلی ہائی کورٹ نے آج ان تینوں کو رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومت نے مخالفت کو دبانے کے اپنے جوش میں آ کر آئین میں شہریوں کو احتجاج کے حق کے حوالے سے دی گئی ضمانت اور دہشت گردانہ سرگرمی کے درمیان فرق کو ملحوظ نہیں رکھا۔ اگر اس رجحان کی تائید کی گئی تو یہ جمہوریت کے لیے بہت افسوس ناک ہو گا۔
مسلم طلبا کی ملک گیر تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) کے صدر محمد سلمان احمد نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے اسٹوڈنٹس لیڈروں کی رہائی کا خیر مقدم کیا ہے، ”ہمیں خوشی ہے کہ معزز عدالت نے بے بنیاد الزامات کو خارج کر دیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ فیصلہ معصوم نوجوانوں کو فرضی الزامات میں پھنسا کر ظلم و زیادتی کا نشانہ بنانے کے خلاف ایک مثال ثابت ہو گا۔" انہوں نے جھوٹے الزامات میں گرفتار دیگر بے گناہ افراد کو بھی جلد از جلد رہا کرنے اور دہلی فسادات کے اصل مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
دونوں طالبات کو مشکل حالات کا سامنا
آصف اقبال تنہا دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بی اے کے طالب علم ہیں جبکہ ناروال اور کالیتا جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ یہ دونوں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم گروپ'پنجرہ توڑ‘ کی رکن بھی ہیں۔ اقبال کو عدالت نے گزشتہ دنوں امتحان دینے کے لیے عبوری ضمانت دی تھی جبکہ ناروال کو کووڈ کی وجہ سے والد کی موت ہو جانے پر آخری رسومات میں شرکت کے لیے عبوری ضمانت ملی تھی۔
عدالت نے کیا کہا؟
عدالت نے کہا کہ اشتعال انگیز تقریریں کرنے، پہیہ جام کرانے، خواتین کو احتجاج کے لیے بھڑکانے اور مختلف مواد جمع کرنے اور دیگر الزامات کو اگر ہم ان کی انتہائی صورت میں دیکھیں تب بھی، جو شواہد پیش کیے گئے ہیں، ہم نہیں سمجھتے کہ ان کی بنیاد پر، ملزمان کو تشدد بھڑکانےکا قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ عدالت نے مزید کہا، ”ہمیں یہ یقین ہے کہ ہمارے ملک کی بنیادیں اتنی کمزور نہیں ہیں کہ وہ کالج کے طلبا یا دیگر افراد کی طرف سے منعقد کردہ کسی مظاہرے سے، خواہ وہ کتنا زبردست ہی کیوں نہ ہو، ہل سکتی ہیں۔"
دہلی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے سابق فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی یا پارلیمانی فیصلوں کے خلاف احتجاج کرنا قانونی طور پر جائز ہے اور گوکہ یہ امید کی جاتی ہے کہ ایسے مظاہرے پرامن اور تشدد سے پاک رہیں لیکن مظاہرین کا قانون کی طرف سے مقررہ حد کو پار کر جانا عام بات ہے۔
اہلخانہ کا ردعمل
رہائی پانے والے طلبا کے سرپرستوں نے مسرت کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے سے عدلیہ پر ان کا یقین مزید مستحکم ہوا ہے۔ آصف اقبال کی والدہ جہاں آرا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ کل ساری رات اپنے بیٹے کے لیے دعائیں کرتی رہی کیونکہ آج اس کی ضمانت کی عرضی پر سماعت ہونے والی تھی۔ اپنے بیٹے کی آمد کی منتظر جہاں آرانے کہا، ”ابھی میرا بچہ یہاں ہوتا تو میں اس کو سینے سے لگا لیتی۔ لیکن وہ ابھی کاغذات وغیرہ تیار کرا رہا ہے۔"
ناروال کے بھائی آکاش ناروال نے کہا کہ نتاشا کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس نے اس کے حوصلوں کو مزید بڑھا دیا ہے، ”میں امید کرتا ہوں کہ ان تمام لوگوں کو بھی جلد رہائی مل سکے گی، جنہیں جھوٹے الزامات میں جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔"
کالیتا کی والدہ کلپنا کالیتا کا کہنا تھا، ''میں آخری لمحے تک خوفزدہ تھی کیونکہ میری بیٹی کے خلاف یو اے پی اے جیسا قانون لگایا گیا تھا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ کلپنا کے والد نے حال ہی میں اسے ایک خط لکھ کر حوصلہ دیتے ہوئے نیلسن منڈیلا سے سبق لینے کے لیے کہا تھا، جنہیں 27 برس جیل میں گزارنے پڑے تھے۔
درجنوں طلبا اور نوجوان اب بھی جیلوں میں
حکومت کے اقدامات، فیصلوں اور متنازعہ قوانین کے خلاف احتجاج اور مظاہرہ کرنے والے درجنوں طلبا، نوجوان اور دیگرا فراد اب بھی جیلوں میں بند ہیں۔ ان کے خلاف قومی سلامتی قانون، انسداد دہشت گردی قانون اور دیگر انتہائی سخت قوانین کے تحت کیس دائر کیے گئے ہیں، جن کی وجہ سے برسوں تک ان کی رہائی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔
حالانکہ سپریم کورٹ نے اپنے متعدد فیصلوں میں اور ماہرین قانون نے اپنے دلائل میں کہا ہے کہ حکومت یا سربراہ حکومت کے اقدامات کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کرنا یا اس کے خلاف پرامن مظاہرہ کرنا ہر بھارتی شہری کا آئینی حق ہے۔