اس سال اب تک مزید کتنے پاکستانی جرمنی پہنچے؟
25 جون 2017جرمنی کے وفاقی دفتر برائے تارکین وطن و مہاجرت (بی اے ایم ایف) نے مہاجرین سے متعلق اس سال کے پہلے پانچ ماہ کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ ان تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق رواں برس جنوری سے مئی کے آخر تک مزید پچانوے ہزار سے زائد تارکین وطن نے پہلی مرتبہ جرمن حکام کو اپنی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔
جرمنی میں نئی زندگی (1): آمد کے بعد کیا ہوتا ہے؟
جرمنی: مہاجرین پر خرچہ یا سرمایہ کاری؟
جرمنی میں نئے آنے والے تارکین وطن میں سے نصف سے زائد کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے۔ ان میں سے پناہ کے متلاشی بیس ہزار افراد کا تعلق شام سے ہے۔ مزید قریب نو ہزار افغان شہری بھی اس عرصے میں جرمنی پہچنے جب کہ عراق کے ساڑھے آٹھ ہزار اور ایران کے سوا چار ہزار شہری بھی پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔
گزشتہ سال کی نسبت رواں برس جرمنی آنے والے پاکستانی تارکین کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے، سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران قریب دو ہزار پاکستانی شہریوں نے جرمن حکام کو پہلی مرتبہ اپنی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔
جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کو دیکھا جائے تو چھ سو بھارتی، ڈھائی سو بنگلہ دیشی اور سوا دو سو سری لنکن شہری بھی ان پانچ ماہ کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔
مشرق وسطیٰ میں شام اور عراق کے شہریوں کے مقابلے میں ایک اور جنگ زدہ عرب ملک یمن کے محض 161 شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔
افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے مزید تئیس ہزار تارکین وطن نے بھی اس سال جنوری سے مئی تک جرمنی میں اپنی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ افریقہ سے سب سے زیادہ تارکین وطن اریٹریا سے جرمنی پہنچے، اریٹریا کے قریب ساڑھے پانچ ہزار شہریوں نے اس سال اب تک جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔ ان کے بعد زیادہ تر افریقی مہاجرین کا تعلق نائجیریا اور صومالیہ سے تھا۔
ان ممالک کے شہریوں کے علاوہ شمالی افریقہ سے تیونس، الجزائر اور مراکش جیسے مسلم اکثریتی ملکوں کے ہزاروں شہریوں نے بھی اس دوران سیاسی پناہ کے حصول کے لیے جرمنی کا رخ کیا۔
دریں اثناء یورپی ممالک کے ہزارہا شہری بھی ابھی تک پناہ کے حصول کے لیے جرمنی کا رخ کر رہے ہیں۔ بی اے ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر مختلف یورپی ممالک کے سولہ ہزار سات سو شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ ان میں سے ستائیس سو غیر ملکیوں کا تعلق روس سے تھا اور اتنی ہی تعداد میں ترک شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔
روس اور ترکی کے علاوہ سربیا، البانیہ، کوسووو اور مقدونیہ جیسے مشرقی یورپی ممالک میں سے بھی ہر ایک کے دو دو ہزار سے زائد باشندوں نے جنوری سے مئی تک جرمن حکام کو اپنی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔