جرمنی: مہاجرین پر خرچہ یا سرمایہ کاری؟
24 اگست 2016جرمنی میں تارکین وطن کا اندراج EASY نامی کمپیوٹر سسٹم میں کیا جاتا ہے۔ اس سسٹم کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ستمبر 2015ء سے لے کر جولائی 2016ء تک کے درمیانی عرصے میں نو لاکھ سے زائد پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کی گئی۔ تاہم جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرین اور ترک وطن (BAMF) کی ایک خاتون ترجمان کے مطابق یہ اعداد و شمار بھی حتمی نہیں ہیں۔
جرمنی نے اس سال اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ دی؟
جرمنی میں مہاجرین سے متعلق نئے قوانین
لیکن ایک بات بہرحال طے ہے۔ وہ یہ کہ ترکی کے ساتھ معاہدہ طے پانے اور بلقان کی ریاستوں کی جانب سے مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں بند کیے جانے کے بعد سے جرمنی پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔ اس سال یکم جنوری سے لے کر جون کے اواخر تک ’صرف‘ 91 ہزار چھ سو تارکین وطن جرمنی پہنچے۔
جرمنی میں دی جانے والی پناہ کی نئی درخواستوں کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال کچھ مختلف دکھائی دیتی ہے۔ اس سال جولائی کے آخر تک 4 لاکھ 69 ہزار نئے تارکین وطن نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اس فرق کی بنیادی وجہ بی اے ایم ایف کی جانب سے سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کرنے کی سست رفتار ہے۔
مہاجرین پر اخراجات کے تخمینے
جرمنی میں اقتصادی اور معاشی امور کے کئی اداروں نے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ ملک میں لاکھوں مہاجرین کو رہائش فراہم کرنے اور انہیں تعلیم و تربیت، صحت اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لیے اس ملک کو کتنے اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے۔
زیادہ تر جائزوں کے مطابق جرمنی میں ایک عام تارک وطن کو پناہ دینے پر حکومت کو اوسطاﹰ سالانہ 12 تا 20 ہزار یورو تک کا خرچہ برداشت کرنا پڑے گا۔ وفاقی وزارت مالیات کے مطابق 2016ء سے لے اگلے پنچ برسوں تک جرمن حکومت کو مہاجرین کو ضروری سہولیات فراہم کرنے کے لیے کُل 100 بلین یورو اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے۔ یوں سالانہ بنیادوں پر یہ رقوم 20 بلین یورو بنتی ہیں۔
مہاجرین پر اخراجات یا فائدہ مند سرمایہ کاری؟
بہت سے ماہرین کے لیے یہ سوال بھی بڑا اہم ہے کہ تارکین وطن کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے حکومت جو رقوم خرچ کر رہی ہے، کیا وہ خالص خرچہ ہی ہے یا اس سے کوئی پوشیدہ فائدے بھی وابستہ ہیں؟ ماہرین اقتصادیات کے مطابق جرمن ریاست مہاجرین اور تارکین وطن پر اتنی بڑی رقوم خرچ تو کرے گی لیکن اس عمل سے طویل المدتی بنیادوں پر جرمنی کی اقتصادی حالت بھی مستحکم ہو گی۔ مہاجرین کے امور سے وابستہ اداروں میں روزگار کے ہزارہا نئے مواقع پیدا ہوں گے اور انہی اقتصادی سرگرمیوں کی بدولت جرمن حکومت کو محصولات کی مد میں ہونے والی آمدنی بھی لازمی طور پر زیادہ ہو جائے گی۔
اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ گزشتہ صرف ایک برس کے دوران بی اے ایم ایف کے مستقل ملامین کی تعداد دگنی ہو چکی ہے۔ علاوہ ازیں مہاجرین اور ان کے بچوں کو تعلیم فراہم کرنے اور سماجی انضمام کے پروگراموں کے لیے بھی ہزاروں اساتذہ درکار ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق مستقبل قریب میں صرف تعلیم کے شعبے میں 25 ہزار نئی آسامیاں جب کہ سماجی خدمات کے شعبے میں بھی مزید 14 ہزار آسامیاں پیدا ہوں گی۔
اگر صورت حال جرمن حکومت کے اندازوں اور منصوبوں کے مطابق ہی رہی، تو تارکین وطن پر اٹھنے والے اخراجات اگلے 20 برسوں کے دوران واپس جرمن حکومت کے خزانے میں آ جائیں گے۔ لیکن اگر معاملات بگڑ گئے اور اقتصادی نتائج ماہرین کی توقعات کے برعکس رہے، تو حکومت کو مجموعی طور پر 400 بلین یورو تک کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔