’اعلان تو کر دیا لیکن پیسے پیڑ پر اگتے ہیں کیا؟‘
13 مئی 2020ملک کی متعدد ریاستی حکومتیں بھی خستہ حال اقتصادی صورت حال کے مدنظر مرکز سے پیسوں کا مطالبہ کررہی ہیں کیوں کہ لاک ڈاون کی وجہ سے ان کی ٹیکس محصولات میں بھی زبردست کمی آئی ہے۔ تو پھر رقم کا انتظام کہاں سے ہوگا؟ اور اگر ہوگا تو اس سے نچلے طبقوں کا بھلا کیسے ہوگا جو آج کل روزی روٹی کے لیے ترس رہے ہیں؟
ماہر اقتصادیات پروفیسر روی سریواستو نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ابھی تک تو بس یہ ایک اعلان ہی لگتا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر جب تمام محکمے پیسوں سے کمی کی مار جھیل رہے تو حکومت اس کا بند و بست کیسے کرے گی۔ یہ بڑا مبہم معاملہ ہے اوروزیر خزانہ جب اس کی تفصیلات بتائیں گی تبھی بات کچھ واضح ہو سکے گی۔''
ہارڈ نیوز کے ایڈیٹر سنجے کپور کا کہنا ہے کہ اس وقت افرا تفری کے عالم میں حکومت نے عوام کی تسلی کے لیے اتنے بڑے پیکج کا اعلان تو کردیا ہے تاہم اس کا نفاذ بہت مشکل ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ''کہا جا رہا ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا اس کے لیے اضافی نوٹ چھاپے گی اور حکومت بھی بڑے خسارے کے لیے تیار ہے۔ ابھی تک کچھ بھی واضح نہیں کہ عملی سطح پر حکومت کیا کرنے جا رہی ہے۔ یہ اعلان بھی شاید پہلے اعلانات کی طرح ہی ہے جس کا مستقبل میں زمینی اثر شاید کچھ بھی نہ ہو۔''
بیس لاکھ کروڑ روپے کے اعلان پر سوشل میڈیا میں بھی زبردست بحث چھڑی ہوئی ہے۔ کانگریس پارٹی سے وابستہ دلت رہنما ادت راج نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ایک جملے کو دہراتے ہوئے حکومت پر طنز کیا اور لکھا، '' وزیر اعظم نے بیس لاکھ کروڑ کے پیکج کا اعلان تو کر دیا لیکن آئے گا کہاں سے؟ کیا پیسے پیڑ پر اگتے ہیں؟''
وزیر اعظم مودی کے اعلان پر لوگ طنزیہ انداز میں پوچھ رہے کہ ''ہمارے پندرہ لاکھ روپے کہاں گئے؟ پہلے وہ تو ہمارے اکاؤنٹ میں ڈالیے۔'' واضح رہے کہ مودی نے اپنے پہلے انتخابی وعدے میں بیرونی ممالک کی بینکوں جمع کالے دھن کو واپس لاکر ہر شہری کو پندرہ پندرہ لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا۔
اس سلسلے میں ایک کارٹون بھی دلچسپی کا موضوع بنا ہوا ہے۔ کارٹون میں دکھایا گیا ہے کہ مودی کے بیس لاکھ کروڑ کے جواب میں ایک نہایت ہی غریب مزدور چالیس لاکھ کروڑ کے پیکج کا اعلان کرتا ہے۔ اس پر مودی آک بگولہ ہوکر کہتے ہیں، ''یہ کیا مذاق ہے؟ تو مزدر جواب دیتا ہے شروعات کس نے کی ہے؟''
بیشتر افراد کا یہی خیال ہے کہ اب لفّاظی نہیں بلکہ عملی طور پر ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بھوک سے ہونے والی اموات کو روکا جا سکے اور بے روزگاروں کو روزگار مل سکے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے خطاب میں ان تمام مسائل پر توجہ دینے کے بجائے بھارت کو خود انحصار بنانے پر زور دیتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر بھارتی کو چاہیے کہ وہ بھارت کی بنی ہوئی چیز کا استعمال کرے اور اس طرح ملک خود کفیل ہو جائیگا اور دوسروں پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔ مودی نے کہا کہ اس پیکج کے تحت بھی ایسے کئی اقدامات کیے جائیں گے جس سے خود انحصاری کی مہم کا آغاز ہوسکے گا۔
اس وقت بھارت میں عام استعمال کی بیشتر اشیاء درآمد کی جاتی ہیں۔ مثلا موبائل فونز، ٹی وی، فریج، گاڑیاں، بہت سی ادویات اور ملبوسات و جوتوں کی بیشتر بیرونی کمپنیاں زیادہ مقبول ہیں۔ حالات یہ ہے کہ دالیں، چاول اور دیگر غذائی اشیا بھی بیرونی ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں۔
تو کیا بھارت اب ایسی تمام اشیاء اس پیمانے اور کوالٹی کا تیار کرنے لگے گا کہ بھارتی شہری بیرونی ممالک کی اشیاء سے نجات پا جائیں گے۔
ہارڈ نیوز کے ایڈیٹر سنجے کپور کہتے ہیں کہ یہ حقیقت میں چین کے خلاف ایک پروپیگنڈے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''بھارت میں ہندو تنظیم آر ایس ایس اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے ملکر پہلے سے ایک اسکیم تیار کی ہے کہ سپلائی چین میں چین پر انحصار کو کم کیا جائے، خاص طور پر طبی ساز و سامان چین سے آتی رہی ہیں، اور اس طرح کے اعلانات اسی کا حصہ ہے۔''
چند ہفتے قبل اس کی ابتدا بھارت کے ایک سینئر وزیر نتن گڈکری نے یہ کہہ کر شروع کی تھی کہ کورونا وبا کے سبب بہت سی بین الاقوامی کمپنیاں چین میں اپنے کارخانے بند کر دیں گی اور بھارت کے لیے یہ بہتر موقع ہے۔ اس کے بعد سے تقریبا ہر روز اس طرح کی خبریں آتی ہیں کہ بھارت میں سرمایہ کاری کا یہ سنہری موقع ہے اور بہت سی کمپنیاں بھارت کا رخ کرنے والی ہیں۔
بھارت کا خیال ہے کہ بیشتر امریکی کمپنیاں اب اپنے کارخانے چین سے ختم کرنے والی ہیں اور اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھارت بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے بہتر سہولیات مہیا کرنے کا وعدہ کر رہا ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق یہ اتنا آسان نہیں ہے کیوں کہ بھارت میں کام کے تعلق سے کلچر اور آب و ہوا اتنی سازگار نہیں ہے۔