افغانستان کا اُجڑا شہر لشکر گاہ بے گھر افراد کا سہارا
24 مئی 2021
گزشتہ اکتوبر سے اب تک افغانستان کے جنوب مغربی صوبے ہلمند میں طالبان کے حملوں میں غیر معمولی اضافے کے سبب ہزاروں افراد بے گھر ہو چُکے ہیں۔ ہلمند کے رہائشیوں کی اکثریت اپنا گھر بار چھوڑ کر ہلمند کے شہر اور دارالحکومت لشکر گاہ جا بسی ہے۔ ہلمند کا شمار ان شہروں میں ہوتا ہے جو اب بھی کابل حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ یہاں پہلے سے مہاجرین یا پناہ گزین آباد تھے، اب اندرونی ملک نقل مکانی پر مجبور مزید افغان مہاجرین لشکر گاہ کے کھنڈرات میں اپنا نیا گھر بسا رہے ہیں۔
شاندار تاریخ
لشکر گاہ کبھی نامور اسلامی خاندانوں کے سلاطین کا موسم سرما میں پسندیدہ رہائشی مقام ہوا کرتا تھا۔ دریائے ہلمند کے کنارے چٹانوں سے باہر جھانکتی مٹی سے بنی شاندار عمارتیں اب بوسیدہ ہو چُکی ہیں اور شہری آبادی کے پھیلنے سے انہیں خطرات کا سامنا ہے۔ بڑی تعداد میں افغان شہری ہلمند کے اس علاقے کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں اور ان کی رہائش کے لیے ان قدیم تاریخی عمارتوں کو عارضی تعمیراتی عمارات میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
انتہا پسند ثقافتی ورثے کے دشمن کیوں؟
لشکر گاہ کو قدیم تاریخ میں 'بوست‘ بھی کہا جاتا تھا۔ یہ ہلمند کے ڈسٹرکٹ لشکر گاہ میں واقع ہے، عین اُس مقام پر جہاں دریائے ارغنداب ہلمند دریا میں ضم ہو جاتا ہے۔ 'لشکر گاہ‘ کا فارسی میں مطلب ہے 'فوجی بیرکس‘۔ نویں صدی میں یہ علاقہ سلطنت صفاریان کا حصہ تھا۔ ایک ہزار سال قبل یہ غزنوی سلطنت کے دور میں دریا کے کنارے فوجی بیرکس کے مرکز کی حیثیت سے پروان چڑھا۔ بعد میں آنے والی صدیوں میں یہ علاقہ غوریوں، منگولوں اور تیمور لنگ نے دوبارہ سے تعمیر کیا۔
تاریخ کی تعمیر نو؟ بدھا کے مجسمے دوبارہ تعمیر کیے جائیں یا نہیں
16 ویں صدی کے آخر تک اس شہر پر صفوی خاندان کا راج تھا اور 1709ء میں یہ شہر افغان ہوتاکی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ افشاری فورسز نے اس پر 1738ء میں قبضہ کر لیا۔ 1747ء میں یہ درانی سلطنت یا جدید افغانستان کا حصہ بن گیا۔ اینگلو افغان جنگ کے دوران 1840ء میں انگریزوں نے اسے اپنے زیر اثر رکھنے کی کوشش کی مگر ایک سال کے اندر وہ اس جگہ سے نکل گئے۔ 1880ء کی دوسری اینگلو افغان جنگ میں انگریزوں نے اسے عبدل رحمان خان کو واپس کر دیا۔ اُس کے بعد قریب 100 سال تک یہ علاقہ پُر امن رہا۔
ثقافتی روثہ
ہلمند کے اس علاقے کو مقامی سطح پر 'قلعہ کہنہ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہاں پر قائم لشکری بازار آثار قدیمہ کے بین الاقوامی ماہرین کی غیر معمولی دلچسپی کا سبب ہے۔ خاص طور سے اپنے فن تعمیر اور فصیلوں اور دیواروں کی وجہ سے۔ 10 کلو میٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا یہ مقام غزنوی اور غوری سلطانوں کی مشہور سرمائی رہائش گاہ رہی ہے۔ ان دونوں خاندانوں کا اس علاقے پر، جو موجودہ افغانستان کہلاتا ہے، دسویں تا تیرہویں صدی غلبہ رہا ہے اور یہیں سے اسلامی فن و ثقافت شمالی ہندوستان تک پھیلی۔
افغانستان میں سرگرم فرانسیسی آثار قدیمہ کے ایک وفد DAFA کے ڈائریکٹر فیلپ مارکوئی کے بقول، ''تمام عالم اسلام میں کہیں ایسا کوئی دوسرا مقام نہیں پایا جاتا جہاں یہ سب کچھ موجود ہو۔‘‘ فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو مزید بتایا، ''اس کو محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ اس جگہ سے ہمیں قدیم ادوار کے بارے میں بہت کچھ پتا چل سکے گا۔‘‘
افغانستان: بامیان کی سکیورٹی ذمہ داریاں افغان فورسز نے سنبھال لیں
لشکر گاہ کی قدیم برجوں، عمارتوں کے دروازوں اور کھڑکیوں کو مضبوط بنانے اور دیواروں کو گرنے سے بچانے کے لیے مٹی اور بھوسے کے آمیزے کو بروئے کار لیایا جا رہا ہے۔
نیا میدان جنگ
جب سے طالبان رہنماؤں اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات کا سلسلہ بند ہوا ہے تب سے جنوبی افغانستان میں نئی جنگ شروع ہو گئی ہے۔ اُدھر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ستمبر تک اپنے تمام فوجیوں کے افغانستان سے انخلا کا اعلان کر رکھا ہے۔ لشکر گاہ کے ایک بوسیدہ محل کی چار دیواری سے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے 48 سالہ بی بی حلیمہ نے کہا، ''حکومت کو میری مدد کرنا چاہیے کیونکہ میں نے اس کی خدمت انجام دینے والے تین بیٹے قربان کر دیے۔‘‘
بی بی حلیمہ کے ایک اور پڑوسی کا کہنا تھا،'' ہر گھر میں بیوائیں بھری ہوئی ہیں۔‘‘
امداد کے بدلے افغانستان کے قدرتی وسائل سے حصہ چاہیے، ٹرمپ
لُٹے پٹے لشکر گاہ کو قابضوں کا خطرہ
کابل میں افغانستان کے محکمہ آثار قدیمہ کے ایک اہلکار کے مطابق لشکر گاہ کے مقام سے اب زمینوں پر قبضے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ چند خاندان اس جگہ سرگرم مافیا کو کرایہ ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سابقہ شاہی شہر کی قدیم شاندار مگر خستہ حال محرابوں، فصیلوں اور دیواروں کے اندر کی زندگی وہاں کے رہائشیوں کے لیے مسلسل ایک یاد دہانی ہے کہ یہ ملک کس طرح ابھی تک حملوں، قبضوں اور خانہ جنگی سے نبرد آزما ہو رہا ہے۔
لشکر گاہ کے ثقافتی ورثے کی دریافت 1950ء میں فرانسیسی آثار قدیمہ کے ایک وفد DAFA نے کی تھی۔ تب سے اب تک یہاں اس قدیمی شہر کی عمارتوں اور نایاب اشیا کی نگرانی اور تحفظ کے لیے کوئی کام نہیں ہوا ہے۔
عالمی طاقتوں کی چکی میں پستا ہوا افغانستان
اس جگہ سے برآمد ہونے والی نادر اشیا میں ماہرین آثار قدیمی کو محلات، مساجد اور دیگر عمارتوں سے مٹی کے برتن، دستکاریاں اور کھانے کی چیزوں کی حفاظت کے لیے استعمال ہونے والے آئس باکس ملے ہیں۔ کھدائی میں پینٹنگز کا ایک حیرت انگیز سلسلہ ملا ہے جس میں عدالتی مناظر دکھائے گئے ہیں جو اُس دور کے لیے بہت ہی نایاب ہے جس میں مسلم معاشروں میں انسانوں کی حقیقی نمائندگی بہت حد تک پامال رہی ہے۔ 1990 ء کی خانہ جنگی کے دوران ایک دہائی میں ان پینٹنگز کو کابل کے عجائب گھر منتقل کر دیا گیا جہاں سے یا تو یہ چوری ہوگئیں یا تباہ ہو گئیں۔
’افغانستان: قدرتی وسائل پر طالبان چھاتے جا رہے ہیں‘ اقوام متحدہ
فرانسیسی آثار قدیمہ کے وفد DAFA کے ڈائریکٹر کو اب اس بات کی تشویش ہے کہ بے گھر ہونے والے کُنبوں اور لٹیروں کی وجہ سے اب اس ثقافتی ورثے کی حیثیت رکھنے والے علاقے پر مزید کتنے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ساتھ ہی گلوبل وارمننگ بھی ایک بڑا خطرہ ہے کیونکہ کسی بھی وقت دریائے ارغنداب اور ہلمند دریا میں طغیانی آ سکتی ہے۔
ک م/ ا ب ا) اے ایف پی ای(