پاکستان کے لیے کروڑوں ڈالر کی امریکی عسکری امداد بند
5 جنوری 2018امریکی محکمہء خارجہ کی جانب سے یہ فیصلہ، امریکی انتظامیہ کی جانب سے سال ہا سال کے ان مطالبات پر عمل درآمد نہ ہونے کا نتیجہ ہے، جن میں پاکستان سے کہا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود ان عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کرے، جو سرحد عبور کر کے افغانستان میں امریکی، افغان اور دیگر فورسز پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
دہشتگردی کے خلاف جنگ: جاپان کی طرف سے پاکستان کی تعریف
امریکا نے کوئی ایکشن لیا تو ردعمل ہو گا، پاکستانی موقف
ٹرمپ ناسمجھ اور ناشکرے ہیں، عمران خان
محکمہء خارجہ نے یہ نہیں بتایا ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان کے لیے کتنی امداد روکی گئی ہے، تاہم کہا گیا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ دفاع اس حوالے سے مجموعی اعداد و شمار مرتب کر رہے ہیں۔
امریکی حکام کے مطابق اس طرح دو شعبوں میں پاکستان کو دی جانے والی امداد روکی جائے گی، جس میں سے ایک فارن ملٹری فائنانسنگ (FMF) ہے، جس کے تحت پاکستانی فوج کو امریکی ہتھیار، تربیت اور خدمات مہیا کی جاتی ہے۔ دوسرا شعبہ اتحادی امدادی فنڈ (CSF) کا ہے، جس کے تحت دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائیوں پر خرچ ہونے والا سرمایہ پاکستان کو ادا کیا جاتا ہے۔
امریکی حکام کے مطابق انتہائی ضروری امریکی قومی سلامتی ترجیحات سے متعلق کچھ حالات میں کچھ امداد پاکستان کو تاہم دی جا سکتی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ CFS فنڈ مکمل طور پر امریکی وزارت دفاع کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کمانڈر پیٹرک ایونس کے مطابق امریکی کانگریس نے اس مد میں پاکستان کو مالی سال 2017 کے تحت، جو ستمبر کی 30 تاریخ کو ختم ہوا، 900 ملین ڈالر تک ادا کرنے کی منظوری دی تھی، تاہم یہ رقم ابھی ادا نہیں کی گئی تھی۔
پاکستان کو روکی جانے والی امداد میں سن 2016ء میں پاکستان کے لیے مختص 255 ملین ڈالر کی امداد کی معطلی کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔
امریکی حکام نے تاہم کہا ہے کہ عسکری امداد کی بندش کا اثر پاکستان کو عوامی شعبے میں دی جانے والی امداد پر نہیں پڑے گا، تاہم عسکری امداد فقط اس صورت میں اسلام آباد حکومت کے حوالے کی جائے گی، جب وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ’’ہمیں امید ہے کہ وہ اس اقدام کو امریکی انتظامیہ کی اس شدید بے چینی کا اظہار سمجھیں گے، جو ہماری قیادت تک موجود ہے۔ اب وہ سنجیدہ انداز سے وہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جن کا ان سے مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔‘‘
اس عہدیدار کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں امید ہےکہ پاکستان اسے سزا کی بجائے ایک طرح سے حوصلہ افزائی کے طور پر لے گا۔‘‘
دوسری جانب پاکستانی سینیٹر نزہت صادق نے اس امریکی اقدام کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات پر اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستانی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کے شعبے کی سربراہ صادق کے مطابق اسلام آباد حکومت اس صورت حال سے بھی نوے کی دہائی کی طرح نمٹ لے گی، ’’تاہم ہم بہتر سمجھیں گے کہ مشکلات کے شکار ان تعلقات میں بہتری لائی جائے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ امریکی اقدام خطے میں امن کے قیام اور دہشت گردی کے انسداد کی پالیسی کے لیے درست نہیں ہے۔‘‘