انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس ہے:قذافی کے مشیر کا بیان
21 اپریل 2011دوسری جانب مشرق وسطیٰ کی ریاست شام میں حالیہ خونی فسادات کے بعد سے سیاسی سطح پر مسلسل تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ شام کے صدر بشارالاسد نے آج جمعرات کو شہر حُمص کے نئے گورنر کی تقرری کا اعلان کیا ہے۔ اس شہر میں حال ہی میں سکیورٹی فورسز اور حکومت مخالف مظاہرین کے مابین خونی جھڑپیں ہوئی تھیں۔ حُمص کے تمام علاقوں میں فوجی دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ سیاسی سرگرموں کے مطابق آج جمعرات کو حُمص میں بڑی احتجاجی ریلیوں کے انعقاد کا منصوبہ تیار تھا تاہم راتوں رات سکیورٹی اہلکارسادہ کپڑوں میں تمام شہر میں پھیل گئے تاکہ مظاہرین کو ریلی نکالنے سے باز رکھا جا سکے۔ دریں اثناء واشنگٹن انتظامیہ نے شامی قیادت کی مظاہرین کے ساتھ ہونے والے سلوک کے سبب سخت مذمت کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ’ہم شام میں پُر امن مظاہرین پر ہونے والے مسلسل تشدد کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ تاہم ہم مظاہرین کی طرف سے بھی تشدد کے استعمال کے سخت خلاف ہیں۔ گزشتہ ماہ سے شروع ہونے والے ان فسادات کے بارے میں ہمارا ایک ہی موقف چلا آ رہا ہے۔ وہ یہ کہ تشدد کو بند کیا جائے اور شام کے عوام کے جائز مطالبات، اُن کی ضروریات اور خواہشات کا احترام کرتے ہوئے سیاسی عمل میں تبدیلی لائی جائے‘۔
ادھر شام کے شمال مشرقی صوبے ہساکا میں آج جمعرات کو جمہوریت کے حامی افراد نے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق درجنوں مظاہرین نے ہساکا یونیورسٹی کے باہر جمع ہو کرآزادی کے حق میں اور صدر بشارالاسد کے خلاف نعرے لگائے۔ ہساکا کے ہزاروں باشندے گزشتہ چھ سالوں سے پانی کے بحران سے دوچار ہیں۔
اُدھر شمالی افریقی ملک لیبیا کی صورتحال بدستور کشیدہ ہے۔ گزشتہ روز امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے واشنگٹن میں کہا کہ لیبیا کے باغیوں کو امریکہ کی طرف سے پہلی مرتبہ ادویات، یونیفارم، حفاظتی سامان اور اشیائے خوراک مہیا کی جائیں گی، جن کی مجموعی مالیت 25 ملین ڈالر کے قریب بنتی ہے۔ مشرقی لیبیا کے شہر بن غازی میں قائم باغیوں کی عبوری کونسل نے مغربی دنیا سے اپنے لیے ہتھیاروں کی فراہمی کی درخواست بھی کی تھی تاہم اس بارے میں امریکہ نے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔قذافی کے فوجی دستوں نے اس مغربی شہر پر از سر نو گرینیڈ حملے کیے ہیں، جن کے نتیجے میں کم از کم تین باغی مارے گئے۔ مصراتہ کے شہر میں ہونے والی شدید لڑائی میں دو مغربی صحافی بھی ہلاک ہوئے۔
دریں اثناء قذافی کے ایک ترجمان موسیٰ ابراہیم نے مصراتہ میں ہونے والی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار یوں کیا’ہمیں انسانی جانوں کے ضیاع کا سخت افسوس ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی دکھ ہے کہ باغی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ لڑائی بند ہو جائے تاکہ مزید انسان ہلاک نہ ہوں۔ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں مار رہے جو ہم سے نہیں لڑ رہا۔ ہم اُن حالات کی تفصیلات جاننا چاہتے ہیں جن میں غیر ملکی صحافی مارے گئے ہیں‘۔
لیبیا کا بحران مسلسل بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ تاہم ایسے وقت میں امریکی انتظامیہ اپنے اس موقف پر ڈٹی ہوئی ہے کہ وہ مغربی دفاعی اتحاد کی طرف سے امریکہ سے لیبیا میں مزید عسکری وسائل کے استعمال کے مطالبے کو پورا نہیں کر سکتی۔ اس بارے میں واشنگٹن انتظامیہ کے اہلکاروں سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ آیا برطانیہ فرانس اور اٹلی کی طرف سے فوجی مُشیروں کی ٹیم کو لیبیا بھیجنے کے اعلان کے پس منظر میں امریکہ بھی اس اقدام کی تقلید کے بارے میں سوچ رہا ہے، وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان ’ ٹم کارنی‘ نے واضح انداز میں کہا ’ صدر باراک اوباما ان تینوں ممالک کے اس فیصلے سے بخوبی واقف ہیں، اس کی حمایت کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس سے باغیوں کو مدد ملے گی۔ تاہم اس سے ہماری پالیسی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یعنی لیبیا کی سرزمین پر امریکی فوج تعینات نہیں کی جائے گی‘۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت، امجد علی