ایران کے پاس اور بھی راستے ہیں، روئٹرز کا تجزیہ
26 جنوری 2012ایران پر اس کے جوہری پروگرام کے حوالے سے اس وقت شدید عالمی دباؤ ہے۔ مغربی ممالک کی جانب سے نئی پابندیوں اور یورینیم افزودہ کرنے کے پروگرام کے خلاف کسی کارروائی کے جواب میں تہران کئی مرتبہ آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دے چکا ہے۔ اس موضوع پر مزید جاننے کے لیے خبر رساں ادارے روئٹرز نے حکومتی یا غیر حکومتی خفیہ اداروں کے چند اہلکاروں، عسکری اور سلامتی کے شعبے کے ماہرین سے رابطہ کیا۔
ان ماہرین کے خیال میں ایرانی قیادت آبنائے ہرمز کو بند کرنے کے بجائے اپنے دشمنوں کو ہراساں کرنے کے دیگر طریقوں پر غور کرے گی۔ ان کے بقول ایران تیز رفتار حملہ آور کشتیوں کے ذریعے بحری جہازوں کو تنگ کر سکتا ہے، خلیج میں ان جزائر پر قبضہ کر سکتا ہے، جن پر دیگر ممالک ملکیت کا دعوی کرتے ہیں۔ وہاں سے گزرنے والے سامان بردار یا جنگی بحری جہازوں کے عملے کو یرغمال بنا سکتا ہے، سنی عرب ممالک میں بدامنی پھیلانے کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔ ان کے بقول یہ تمام پہلو خطرناک ہو سکتے ہیں اور فریقین کی کوئی بھی غلطی تنازعے کو مزید ہوا دے سکتی ہے۔
روڈے جزائر پر واقع امریکی نیوی کے کالج میں پروفیسر نکولس گیووسدیو کہتے ہیں کہ اگر ایران آبنائے ہرمز کو بند نہیں کرتا تو وہ ان میں سے کچھ بھی کر سکتا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ اس سے خطے میں کشیدگی ضرور بڑھے گی۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ایران کا مقصد بھی یہی ہے کہ علاقے میں کشیدگی رہے تاکہ اس کے اثر میں آنے والی دیگر ریاستیں امریکہ پر دباؤ ڈالیں اور ایران مزید وقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ ایران کے انقلابی گارڈز نے اگلے ماہ فوجی مشقوں کا منصوبہ بنایا ہوا ہے۔ اس میں زیادہ تر توجہ سمندر میں کی جانے والی مشقوں کو دی جائے گی۔
امریکی نیوی اور ان کے اتحادی کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ایرانی جنگی کشتیاں ان کا پیچھا کرتی ہیں اور ان کو خدشہ ہے کہ اگر کشیدگی زیادہ بڑھی تو تصادم کا خطرہ بھی بڑھ جائےگا۔
ایران نے کچھ عرصہ قبل ہی دھمکی دی تھی کہ اگر اس پر مزید پابندیاں عائد کی گئیں تو وہ تیل کی ترسیل کے اہم سمندری راستے آبنائے ہرمز کو بند کر دے گا۔ تاہم امریکہ نے جوابی دھمکی میں کہا ہے کہ وہ اہم آبی راستے کو کھولنے کے کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : ندیم گِل