بائیکاٹ کی افواہیں: پی ٹی آئی کی سخت تردید
29 جنوری 2024واضح رہے کہ کچھ دنوں پہلے سابق وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد کچھ حلقوں میں چہ میگوئیاں ہورہی تھیں کہ پاکستان تحریک انصاف بھی انتخابات کا بائیکاٹ کر رہی ہے۔ تاہم پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ زور و شور سے انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں۔
بائیکاٹ کسی صورت نہیں
پارٹی کے ایک رہنما اور عمران خان کے معتمد خاص فیصل شیر جان نے ان خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کسی بھی صورت میں بائیکاٹ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چاہے ہم پر جتنا ہی جبر کیا جائے، جتنی بھی گرفتاریاں کی جائیں، جتنے ہی مقدمات بنائے جائیں ہم انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کریں گے بلکہ ہم اس کی بھرپور تیاری کریں گے اور اس سرگرمی میں حصہ لیں گے۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف کے ایک اور رہنما اور کے پی کے سابق صوبائی وزیر صحت تیمور خان جھگڑا کا کہنا ہے کہ پارٹی کسی بھی صورت میں انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' قومی اسمبلی کے حلقہ 31 اور صوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا کے حلقے 79 میں پی ٹی آئی کے مخالفین کو اتنا خوف ہے کہ وہ اب ہمارے پوسٹرز پھاڑ رہے ہیں کیونکہ بلا چھیننے کے باوجود ان کو یہ نظر آ رہا ہے کہ پی ٹی آئی جیتے گی اور ان کے مخالفین کی ضمانتیں ضبط ہوں گی۔‘‘
تیمور خان جھگڑا کے مطابق ہمارے خلاف مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ''لیکن ہم کسی صورت میں بھی انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کریں گے۔‘‘
ایک سو سولہ نشستوں پر نظر
فیصل شیر جان کے مطابق بائیکاٹ کی خبروں کے برعکس پارٹی قومی اسمبلی کی تقریباً 116 نشستیں حاصل کرنے کی امید کر رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم 149 نشستوں کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن انتخابی نشان چھننے کے بعد اب ہماری توجہ 116 سیٹوں پر ہے۔ ہمیں امید ہے کہ خیبر پختونخوا سے پچاسی فیصد نشستیں، سندھ سے تقریباً بیس نشستیں، جس میں کراچی سے 16 نشستیں بھی شامل ہیں جبکہ بلوچستان میں بھی کچھ نشستیں ہمیں مل جائیں گی۔‘‘
فیصل شیر جان نے دعویٰ کیا کہ اس کے علاوہ پنجاب میں بھی انہیں بھاری ووٹوں سے کامیابی ہوگی۔ ''ہماری کوشش ہے کہ ٹرن آوٹ کم از کم 55 فیصد رہے اور انتخابی فہرستوں میں 23 ملین نوجوان ووٹروں کے اندراج کے بعد ہمیں امید ہے کہ ہمیں بڑے پیمانے پہ ووٹ ملیں گے۔‘‘
بائیکاٹ کا دباؤ ہے
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی صحافی فوزیہ کلثوم رانا کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی پر یقیناً بہت دباؤ ہے کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کرے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''طاقتور حلقوں کی طرف سے یقینا دباؤ ہے کہ پی ٹی آئی انتخابات سے بائیکاٹ کرے کیونکہ انہیں نظر آرہا ہے کہ خوف کے بت ٹوٹے ہیں اور لوگ کل بڑی تعداد میں نکلے ہیں۔ قوی امکان یہ ہے کہ آٹھ فروری کو بھی لوگ بڑی تعداد میں نکل کر پی ٹی آئی کو ووٹ دیں اور ٹرن آؤٹ زیادہ ہونے کی شکل میں پی ٹی آئی کو بھاری اکثریت مل سکتی ہے۔‘‘
فوزیہ کلثوم رانا کے مطابق تاہم عمران خان بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کریں گے۔ ''جو لوگ پی ٹی آئی کو ختم کرنا چاہتے تھے انہوں نے بلا چھین کے بھی دیکھ لیا۔ اس کے بعد اب لوگوں کو پی ٹی آئی کے امیدواروں ک اانتخابی نشان زبانی یاد ہو گئے ہیں، تو انہیں نظر آرہا ہے کہ ان کی ساری کوششیں ناکام ہو گئی ہیں تو وہ کریک ڈاؤن پی ٹی آئی کے خلاف سخت کر رہے ہیں تاکہ اس کو بائیکاٹ پر مجبور کیا جا سکے۔‘‘
مقصد کم ٹرن آوٹ ہے
تجزیہ نگار جنرل نعیم خالد لودھی کا کہنا ہے کہ یقیناً پی ٹی آئی کے مخالفین اور طاقتور حلقے نہیں چاہتے کہ پارٹی انتخابات میں حصہ لے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسی لیے ان کے خلاف مختلف طرح کا پروپگنڈا کیا جا رہا ہے۔ کبھی بائیکاٹ کی خبریں پھیلائی جاتی ہیں اور کبھی امیدواروں کے حوالے سے کنفیوژن پیدا کیا جاتا ہے۔‘‘
جنرل نعیم خالد لودھی کے مطابق ان تمام افواہوں کا بنیادی طور پر مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو مایوس کیا جائے۔ ''اگر پروپیگنڈے کے ذریعے لوگوں کو یہ بتا دیا جائے کہ پی ٹی آئی بائیکاٹ کر رہی ہے تو لوگوں میں مایوسی پھیل جائے گی اور وہ ووٹ ڈالنے نہیں نکلیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ٹرن آؤٹ ممکنہ طور پر کم ہوگا اور کم ٹرن آؤٹ میں دھاندلی آسان ہوتی ہے۔‘‘
بائیکاٹ کے آثار دکھائی نہیں دیتے
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی قومی اسمبلی کے حلقوں کا دورہ کیا ہے اور انہیں بائیکاٹ کے کہیں آثار نظر نہیں آئے۔ احسن رضا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پی ٹی آئی والے نہ صرف کارنر میٹنگز منعقد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے ڈور ٹو ڈور کیمپین بھی شروع کر دی ہے اور ان کے حمایتیوں میں لاہور اور دوسرے علاقوں میں بہت زیادہ جوش و خروش نظر آرہا ہے جس سے یہ نہیں لگتا کہ وہ کسی بھی طور پر بائیکاٹ کرنے جا رہے ہیں۔‘‘