باجوڑ دھماکے میں داعش کا ہاتھ ہو سکتا ہے، پاکستانی حکام
31 جولائی 2023پاکستانی تفتیش کاروں کے مطابق گزشتہ روز باجوڑ میں ہونے والے بم دھماکے کے پیچھے داعش کا ہاتھ ہو سکتا ہے تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی حتمی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے۔ اسی دوران جمعیت علمائے اسلام کی سیاسی ریلی میں ہونے والے خودکش بم حملے میں ہلاکتوں کی تعداد آج پیر کے روز بڑھ کر چون تک پہنچ گئی ہے۔
اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین کا سلسلہ بھی آج سے شروع کر دیا گیا ہے۔باجوڑ میں ہونے والے اس بم دھماکے میں زخمیوں کی تعداد 150 سے زائد ہے، جن میں سے تقریبا نوے افراد کا علاج معالجہ جاری ہے۔ پولیس نے گزشتہ رات چھاپے مارتے ہوئے کم از کم تین مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
افغان سرحد کے قریب سابقہ پاکستانی قبائلی علاقے باجوڑ میں اتوار کو ایک خودکش بمبار نے خود کو جے یو آئی کی ریلی میں ہجوم کے درمیان اڑا دیا، یہ علاقہ کبھی پاکستانی طالبان یا ٹی ٹی پی کے زیر کنٹرول ہوا کرتا تھا۔
اتوار کو کم از کم 40 افراد ہلاک اور 150 سے زائد زخمی ہوئے۔ ریسکیو اہلکار بلال فیضی نے بتایا کہ کم از کم چھ مزید زخمی ہسپتالوں میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے، جس سے ہلاکتوں کی تعداد 46 ہو گئی۔
صوبائی پولیس چیف اختر حیات خان نے تصدیق کی کہ یہ خودکش حملہ تھا اور حملہ آور کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جا رہا ہے۔
مقامی پولیس کے سربراہ نذیر خان نے کہا کہ بم دھماکے سے ممکنہ تعلق میں کم از کم تین مشتبہ افراد کو راتوں رات گرفتار کیا گیا جبکہ انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
خان نے مزید کہا، ''ہم نے ابتدائی تحقیقات سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ حملے میں داعش کا ہاتھ ہے۔‘‘
’’اسلامک اسٹیٹ اِن خراسان‘‘ (ISIK)، جو کہ شدت پسند گروپ داعش کی مقامی شاخ ہے، 2015 سے افغانستان اور پاکستان دونوں میں سرگرم ہے اور کئی مہلک حملوں کے پیچھے بھی اس کا ہاتھ ہے۔ پاکستان میں انتخابات سے قبل عسکریت پسندوں کے تشدد میں اضافہ 2008 سے ایک رجحان رہا ہے۔
ش ر ⁄ ا ا (ڈی پی اے)