برف، ٹرمپ اور بہت کم خواتین: عالمی اقتصادی فورم کا میزانیہ
27 جنوری 2018ڈاووس کے اس سالانہ عالمی اقتصادی فورم میں دنیا کی امیر ترین، انتہائی بااثر اور بہت چیدہ چیدہ شخصیات حصہ لیتی ہیں۔ اس مرتبہ ان شرکاء کی ایک بڑی تعداد اپنے بہت مہنگے مہنگے موبائل فون ہاتھوں میں لیے اس وقت ایک دوسرے کو تقریباﹰ دھکے دیتی نظر آئی، جب ہر کوئی ایک ہی شخصیت کے بارے میں پرجوش تھا۔ یہ شخصیت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تھی، جن کی تقریباﹰ ہر کوئی اپنے فون سے کم از کم ایک تصویر بنا لینا چاہتا تھا۔
ٹرمپ کے جملوں پر ہال میں ’ہوٹنگ‘
آپ کہیں گے تو معذرت کر لوں گا، ٹرمپ
عالمی اقتصادی فورم کے منتظمین نے امریکی صدر ٹرمپ کا خطاب دانستہ طور پر اس اجتماع کے آخری دن رکھا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ امریکی صدر کے خطاب سے پہلے تک اس فورم کی کارروائی کے دوران یورپ کے مستقبل، عالمی معیشت کی صورت حال، عرب دنیا کو درپیش بہت نازک سیاسی حالات اور افریقہ کو درپیش مسائل کے باوجود اس براعظم کی ترقی جیسے موضوعات پر کھل کر تبادلہ خیال کے بعد ہی ڈونلڈ ٹرمپ اپنا خطاب کریں۔
ڈونلڈ ٹرمپ ابھی ڈاووس آئے بھی نہیں تھے کہ اس فورم میں شرکاء کی طرف سے ٹوئٹر پر بار بار اپنے نام کے ذکر کے حوالے سے وہ جمعرات کے دن ہی سے باقی سب شرکاء سے آگے تھے۔ پھر جمعے کے روز انہوں نے اپنی جو تقریر کی، وہ کافی حد تک ناامید کر دینے والی تھی۔
پاکستانی وزیراعظم کی ورلڈ اکنامک فورم کے بانی سے ملاقات
پاکستانی وزیراعظم کی ایشیا انفراسکٹرچر انوسیٹمنٹ بینک کے سربراہ سے ملاقات
ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب میں انہی بار بار کی جانے والی باتوں کی بھرمار تھی، جو موجودہ امریکی صدر ہمیشہ کرتے ہیں، یعنی ہر چند جملوں کے بعد امریکا کی ’عظمت‘ کا ذکر اور کوئی نئی کہی گئی اہم بات اگر تلاش کی بھی جائے تو ملے گا کچھ بھی نہیں۔
ٹرمپ نے اس اجتماع کو اپنے لیے ایک بڑی تشہیری مہم ہی سمجھا تھا، جس دوران حاضرین میں سے کسی کو کوئی سوال پوچھنے کی اجازت نہیں تھی۔ پھر جب عالمی اقتصادی فورم WEF کے بانی کلاؤس شواب نے امریکی صدر سے ایک سوال پوچھ ہی لیا تو جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے پھر میڈیا پر حملے کیے، جس پر حاضرین نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ہوٹنگ شروع کر دی تھی۔
اس سال کے ڈاووس فورم کی صدر ٹرمپ کی شرکت کے علاوہ ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ اس مرتبہ ڈاووس میں اتنی زیادہ برف باری ہوئی، جتنی ایسے کسی اجتماع کے موقع پر پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
غیر منصفانہ تجارت کا خاتمہ ضروری ہے، اپیک
خواتین کو کم تنخواہ ملتی ہے، نئی ریسرچ
ورلڈ اکنامک فورم 2018ء میں مجموعی طور پر 70 سے زائد ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت نے شرکت کی، مجموعی طور پر شرکت کنندگان کی تعداد تین ہزار کے قریب تھی اور وہ بھی سب کے سب باقاعدہ طور پر مدعو کیے گئے تھے کیونکہ بغیر باقاعدہ دعوت کے اس فورم میں کوئی بھی شرکت نہیں کر سکتا۔
اس کے باوجود امسالہ فورم کی ایک یاد رہ جانے والی بات یہ بھی ہے کہ اس سال اس عالمی اجتماع میں خواتین کی تعداد مقابلتاﹰ بہت کم رہی اور کُل شرکت کنندگان میں ان کی شرح محض 21 فیصد تھی۔
داووس: مودی سرمایہ کاروں کو لُبھانے کی کوشش میں
یہ بات یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنے والی سیاسی اور اقتصادی اشرافیہ کا تعلق تاحال زیادہ تر صنفی طور پر صرف مردوں اور سفید فام مردوں ہی سے ہے۔ یہ شرح 2019ء کے عالمی اقتصادی فورم میں بھی شاید زیادہ مختلف نہیں ہو گی۔