بلوچستان: سیلاب، حکومت اور سیاست دانوں کے بیچ پھنسے متاثرین
8 ستمبر 2022صلاح الدین کا تعلق بلوچستان کے علاقے نوشکی سے ہے اور وہ اپنی مدد آپ کے تحت دور دراز کے دیہی علاقوں، جو افغانستان کے ساتھ سرحد پر واقع ہیں، میں امدادی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہاں متاثریں کس قدر بے یار و مددگار ہیں، اس بارے میں صلاح الدین بتاتے ہیں، ''میں نے پانی مانگا تو وہ اتنا گدلا تھا کہ میرا جی متلانے لگا۔ لیکن علاقے کے مکینوں کے مطابق وہ پہلے بھی وہاں موجود اسی جھیل کا پانی پی رہے تھے، جو خشک ہونے والی تھی لیکن اب سیلاب کے باعث دوبارہ بھر گئی ہے۔ سیلابی پانی کے ساتھ مٹی بھی آئی تھی، تو پانی زیادہ گدلا لگ رہا تھا۔ میرے سامنے بیٹھے شخص نے اپنا جملہ مکمل کیا اور پانی کا وہ گلاس خود ہی پی لیا کیونکہ وہاں پینے کے لیے بس اسی جھیل کا پانی ہی میسر تھا۔‘‘
صلاح الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس علاقے میں پینے کا صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر بچے ہیضے جیسی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور کھانے پینے کا سامان بھی نہ ہونے کے برابر ہے، ''لوگوں میں غذائیت کی کمی اس قدر شدید ہو چکی ہے کہ کمزوری کے باعث کچھ لوگ تو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل بھی نہیں۔‘‘
انہوں نے شکوہ کرتے ہوئے کہا، ''ہیلی کاپٹر سے پانی میں آٹا پھینک کر حکومت متاثرین کی کیا اور کیسی مدد کر رہی ہے؟ یہ طرز عمل تو بلوچ روایات کے بھی برعکس ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم اپنے لوگوں کو نہیں چھوڑ سکتے ، ہمارے پاس موٹر سائیکلیں ہیں، ہم چاہیں تو یہاں سے جان بچا کر چلے جائیں لیکن اگر ہم ان لوگوں کو چھوڑ دیتے ہیں، جن کے پاس نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی تعلیم، تو یہ تو مر جائیں گے۔ بلوچستان کے ان شہریوں کا تو کوئی حال تک پوچھنے نہیں آئے گا۔‘‘
سیلاب کے بعد سے اب تک بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سمیت صوبے بھر کو گیس اور بجلی کی فراہمی کے شدید بحران کا سامنا ہے اور مواصلاتی نظام بھی درہم برہم ہے۔
بلوچستان کی صوبائی حکومت کی جانب سے متاثرین کی فضائی مدد میں ناکامی کی وجوہات کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباﹰ 33 ملین شہری حالیہ سیلابوں سے متاثر ہوئے۔ چالیس ہزار خاندانوں کو فوری خوراک اور رہائش کی ضرورت ہے۔ ان میں سے 60 فیصد بلوچستان میں ہیں اور ہر 10 میں سے تین اموات اسی صوبے میں ہوئیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سیلاب سے ہلاکتوں کی مجموعی تعداد اب قریب ڈیڑھ ہزار ہو چکی ہے۔
سیلاب، حکومت اور سیاست دان
جنید جمالی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے علاقے میں لوگ سیف اللہ مگسی کینال کے علاقے میں بے یار و مددگار بیٹھے ہیں کیونکہ ان کا پورا علاقہ تاحال زیر آب ہے، ''اب بھی ان 12 دیہات میں پانچ فٹ تک پانی کھڑا ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ سیلاب کے بعد صرف پچھلے ایک ہفتے میں ہی وہاں پانچ اموات ہوئیں۔ ان میں سے دو حاملہ خواتین تھیں، جن کا زچگی کے دوران انتقال ہو گیا جبکہ ان پانچ میں سے تیسری موت ایک نومولود بچی کی تھی۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں ملیریا اور کئی جلدی بیماریاں بھی پھیل چکی ہیں۔‘‘
جعفرآباد بلوچستان کا ایک ایسا قصبہ ہے جو سندھ اور بلوچستان کو ملاتا بھی ہے۔ یہ علاقہ سیلاب کے باعث دیگر علاقوں سے کٹ گیا۔ تمام رابطہ سڑکیں سیلاب میں بہہ گئیں۔ وہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ سنگین حالات کے باوجود تاحال ان تک کوئی بھی حکومتی امداد نہیں پہنچی۔ یہ وہ علاقہ ہے، جہاں اس سے پہلے بھی تین بار سیلاب آ چکا ہے اور جنید جمالی کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ صوبوں کے درمیان نہری پانی کی تقسیم میں بے قاعدگیاں بھی ہیں۔
جنید جمالی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس علاقے میں یہ پہلا سیلاب نہیں ہے۔ یہاں 2007، 2010 اور 2012 میں بھی سیلااب آئے تھے۔ بار بار کے ان سیلابوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مون سون کی بارشوں کے بعد آر بی او ڈی کینال میں پانی کی سطح بہت اونچی ہو جاتی ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے کینال میں آبی بہاؤ کے راستے بند کر دیے جاتے ہیں تو بلوچستان کے یہ رہائشی علاقے زیر آب آ جاتے ہیں۔ اس کے لیے صوبائی حکومتوں کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نکالنا چاہیے۔‘‘
بلوچستان ایک بار پھر نظر انداز
صوبہ بلوچستان میں حالیہ سیلابوں کے بعد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انسانی اموات کی تعداد ڈھائی سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ جنید جمالی کے مطابق ایسی اموات کی حقیقی تعداد ڈھائی سو سے کہیں زیادہ ہے۔ بلوچستان پاکستان کا ایسا صوبہ ہے جہاں عوام کے پاس وسائل بہت کم ہوتے ہیں اور خواندگی کی شرح تو ویسے بھی بہت کم ہے۔
بلوچستان کے حقوق پر بات کرنے والی ایکٹیوسٹ نور مریم نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ میڈیا رپورٹنگ کے سلسلے میں بھی بلوچستان کو اکثر امتیازی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہاں پرتشدد واقعات کو بھی حکومت اور میڈیا دونوں کی جانب سے زیادہ تر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ حالیہ سیلابی تباہی کی میڈیا کوریج بھی بہت ہی کم رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے صوبے کے عوام کو جو امداد دی بھی جا رہی ہے، وہ نہایت ناکافی ہے۔
انہوں نے کہا، ''اگرچہ سیلاب کی وجہ سے ہونے والی تباہی بہت زیادہ ہے اور پاکستان کے بیشتر دیہی علاقے سیلاب زدہ ہیں، تاہم اس وقت بھی حکومت کی امدادی کوششوں سے متعلق ترجیحات واضح ہیں۔‘‘
صلاح الدین کے مطابق حکومت بلوچستان میں امدادی کام کر تو رہی ہے، لیکن صرف ان علاقوں میں جو میڈیا کی نظروں میں ہیں اور جہاں حکومت کو سیاسی فائدے حاصل ہونے کے امکانات ہیں۔‘‘
صوبائی وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وقتاﹰ فوقتاﹰ صوبے میں جاری ریلیف ورکس کے بارے میں عوام کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے مطابق صوبے میں جہاں زمینی راستوں سے امدادی کارروائی ممکن نہیں، وہاں فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے امداد پہنچائی جا رہی ہے۔
عوام کی نظریں غیر سرکاری امدادی تنظیموں پر
صلاح الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بلوچستان میں حکومتی اداروں کی امدادی کارروائیاں ابھی تک سبھی علاقوں تک نہیں پہنچ پائیں اور اسی لیے لوگ اب بھی غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے دی جانے والی امداد پر ہی انحصار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''جتنا نقصان ہوا ہے، اس کے حساب سے تو یہ امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ نوشکی کے جس علاقے سے میرا تعلق ہے، وہاں حالیہ بارشوں کے نتیجے میں دو بار سیلابی ریلے آئے اور تین ہزار کے قریب شہری بری طرح متاثر ہوئے۔ یہ متاثرین ابھی تک امید لگائے بیٹھے ہیں کہ حکومتی امداد شاید کبھی نا کبھی ان تک پہنچ ہی جائے۔‘‘