بھارت: حجاب کی حمایت اور مخالفت کی بحث مزید گرم
17 فروری 2022مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے متعدد سابق ججوں، وکلاء، سماجی کارکنوں، دانشوروں، طلبہ تنظیموں اور تجارت سے وابستہ 765 افراد نے بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے نام ایک مشترکہ خط لکھا ہے۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر روک لگانے کے حوالے سے کرناٹک ہائی کورٹ کے عبوری حکم سے وہ یکساں طور پر فکر مند ہیں۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ضلع انتظامیہ کی جانب سے اسکولوں اور کالجوں میں داخل ہونے سے قبل مسلم لڑکیوں اور خواتین ٹیچرز کو حجاب اتارنے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے، جوکہ نہ صرف ان کی بلکہ پورے مسلم سماج کی توہین ہے اور بھارتی آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔
اس خط میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ جب بعض دیگر مذاہب کے طلبہ کو ان کی مذہبی شناخت کے ساتھ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہے تو صرف مسلم لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ یہ تفریق کیوں برتی جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ مسلم خواتین کو تعلیم سے محروم کرنے کا موجب بنے گا۔
اشتعال انگیز بیانات کا سلسلہ جاری
حجاب کا تنازعہ جنوری کے پہلے ہفتے میں شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد سے ہی حجاب کے خلاف بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی رکن پارلیمان اور متنازعہ بیانات دینے کے لیے مشہور پرگیا ٹھاکر نے کہا کہ صرف ایسے لوگوں کو ہی حجاب پہننے کی ضرورت ہوتی ہے، جو اپنے گھروں میں محفوظ نہیں ہیں۔
مالیگاؤں بم بلاسٹ کیس کی مرکزی ملزم پرگیا ٹھاکر کا کہنا تھا، " بھارت میں کہیں بھی حجاب پہننے کی ضرورت نہیں۔ صرف وہی لوگ حجاب پہنتے ہیں، جو اپنے گھروں میں ہی محفوظ نہیں۔ اگر آپ مدرسے میں ہیں تو حجاب پہنیے، ہمیں اس سے کوئی پریشانی نہیں لیکن اس کے باہر، ہندو سماج میں، اس کی ضرورت نہیں کیونکہ ہندو عورتوں کی پوجا کرتے ہیں۔"
ہیما مالنی کا بیان
اس سے قبل بالی وڈ اداکارہ اور بی جے پی کی رکن پارلیمان ہیما مالنی نے حجاب کی مخالفت کرتے کہا تھا، "ہر اسکول میں یونیفارم ہوتا ہے، جس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ آپ جو چاہیں وہ اسکول کے باہر پہن سکتے ہیں۔ حجاب کرنا ہے تو تعلیمی اداروں کے باہر کریں۔"
ہیما مالنی کے اس بیان پر سوشل میڈیا پر سخت ردعمل دیکھا گیا تھا۔ بعض لوگوں نے ان سے پوچھا کہ جب سکھ نوجوان پگڑی باندھ کر اور مسیحی لڑکیاں حجاب پہن کر اسکول اور کالج جا سکتی ہیں تو مسلمان لڑکیوں کے حجاب پہننے پر اعتراض کیوں؟
خیال رہے کہ 'ڈریم گرل' کے نام سے معروف ہیما مالنی اور بالی وڈ اداکار دھرمیندر نے شادی کرنے کے لیے سن 1979میں اسلام قبول کرلیا تھا، چونکہ بھارتی قانون کے تحت کوئی ہندو دو بیویاں نہیں رکھ سکتا اس لیے دونوں نے اسلام قبول کیا اور اپنے نام بالترتیب عائشہ اور دلاور خان رکھ لیے تھے۔ دھرمیندر کی اس دوسری شادی سے دو بیٹیاں ایشا اور اہانہ ہیں۔
تسلیمہ نسرین بھی کود پڑیں
بنگلا دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین بھی حجاب تنازعہ کا حصہ بن گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، " کچھ مسلمانوں کا خیال ہے کہ حجاب ضروری ہے اور کچھ کا خیال ہے کہ حجاب ضروری نہیں ہے۔ حجاب کو ساتویں صدی میں متعارف کرایا گیا تھا تاکہ خواتین خود کو مردوں سے بچا کر رکھیں لیکن ہمارے جدید معاشرے 21ویں صدی میں، ہم نے سیکھا ہے کہ عورتیں برابر کی انسان ہیں، اس لیے حجاب یا نقاب یا برقع ظلم کی علامت ہے۔"
تسلیمہ نسرین کا کہنا تھا کہ 'لوگ مذہبی عقائد رکھ سکتے ہیں لیکن وہ ان پر گھر یا کہیں اور عمل کر سکتے ہیں، کسی سیکولر ادارے میں نہیں۔ سیکولر معاشرے میں ہمارا سیکولر ڈریس کوڈ ہونا چاہیے‘۔
خیال رہے کہ بعض متنازعہ تصنیفات اور بے باک خیالات کی مالک بنگلہ دیشی نژاد تسلیمہ نسرین کو سیکورٹی خطرات کی وجہ سن انیس سو چورانوے میں اپنا وطن چھوڑنا پڑا تھا۔ وہ اس وقت بھارت میں طویل ویزا پر مقیم ہیں۔
عدالت کے رویے پر سوال
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ حجاب پر پابندی کا فیصلہ کرنے سے قبل اسکول انتظامیہ نے کئی اہم اصولوں کو نظر انداز کیا۔
کرناٹک ہائی کورٹ میں حجاب کے حق میں دلائل دیتے ہوئے وکیل پروفیسر روی کمار کا کہنا تھا کہ ایجوکیشن ایکٹ کے تحت اسکول یونیفارم میں تبدیلی کرنے سے ایک سال پہلے سرپرستوں کو نوٹس دیا جانا ضروری ہے جس کا خیال نہیں رکھا گیا۔
اسی طرح پری یونیورسٹی کالجوں کے لیے کوئی یونیفارم طے نہیں ہے لہذا یونیفارم کو لازم قرار دے کر انہوں نے ایک غیر قانونی کام کیا۔
مسلم مذہبی رہنماوں کا کہنا ہے کہ حجاب نہ صرف اسلام کے بنیادی احکامات میں سے ایک ہے بلکہ بھارتی آئین بھی ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل اور اس کی تبلیغ کی اجازت دیتا ہے۔