ترک اخبار ’جمہوریت‘ کے چیئرمین بھی گرفتار
11 نومبر 2016خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ترک حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ اکین عطالائے کو اس وارنٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، جس میں ‘دہشت گردانہ‘ کارروائیوں کی چھان بین کی جا رہی ہے۔ روزنامہ ’جمہوریت‘ حالیہ کچھ برسوں سے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والا ملک کا واحد اخبار تھا۔ ترکی میں جولائی میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد انقرہ حکومت نے جب ’شرپسند عناصر‘ کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا، تو اس اخبار کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔
ترکی ميں مبينہ مظالم کے شکار افراد کو جرمنی کی طرف سے پناہ کی پیشکش
ترک میڈیا پر کریک ڈاؤن ’انتہائی پریشان کن‘، چانسلر میرکل
’جمہوریت‘ کے ایڈیٹر انچیف اپنے نو اراکین کے ساتھ باضابطہ طور پر گرفتار
ترک حکومت اپنے کریک ڈاؤن کے تحت پہلے ہی اس اخبار کے مدیر اعلیٰ سمیت نو ملازمین کو گرفتار کر چکی ہے۔ الزام عائد کیا گیا ہے کہ گرفتار شدگان کے کرد باغیوں اور جلا وطن مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کے ساتھ روابط ہیں۔ انقرہ حکومت گولن پر الزام عائد کرتی ہے کہ جولائی میں ناکام فوجی بغاوت میں ان کا ہاتھ تھا۔ تاہم ترک صدر کا ناقد یہ اخبار تمام تر الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
روزنامہ ’جمہوریت‘ کو ترکی میں آزادانہ صحافت کا علم بردار قرار دیا جاتا ہے۔ اس سے قبل حکومت ایک کرد اخبار اور ایک خبر رساں ادارے کو بند کر چکی ہے اور’جمہوریت‘ کے خلاف کارروائی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی دکھائی دیتی ہے۔ صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق، ’’ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد سے پابندیاں انتہائی سخت کر دی گئی ہیں۔ حکومت اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے، جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔‘‘
ترک میں صحافیوں اور میڈیا اداروں کے خلاف انقرہ حکومت کے اس کریک ڈاؤن پر عالمی برادری نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم ترک صدر کا کہنا ہے کہ یہ کریک ڈاؤن دراصل ملک دشمن عناصر کے خلاف کیا جا رہا ہے، جن سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔
ترکی میں اس حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں جولائی سے اب تک تقریباً 170 میڈیا ادارے بند کیے جا چکے ہیں جبکہ سو سے زائد صحافیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ اس کارروائی میں جج، اساتذہ، پولیس اہلکار، سرکاری افسران، فوجی اہلکاروں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ دس ہزار سے زائد افراد کو گرفتار یا انہیں ملازمتوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔
ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوآن حکومت پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے اور اپوزیشن کو دبانے کے لیے ’ناجائز اقدامات‘ بھی کر رہے ہیں۔