تین ارب ڈالر کے نرم قرضے: اسٹیٹ بینک اور قرض پالیسی زیر بحث
6 جولائی 2023پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور اقتدار میں تین ارب ڈالر کے یہ قرضے مختلف صنعت کاروں اور کاروباری شخصیات کو بلاسود دیے گئے تھے۔ اب لیکن ریاست کا مرکزی بینک ایسے افراد کے نام پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے عام اجلاس میں میں ظاہر کرنے سے معذرت کر رہا ہے۔ پاکستانی اسٹیٹ بینک کے اس رویے پر کئی حلقوں میں بھرپور بحث جاری ہے۔
پاکستان:ارکان اسمبلی کی نااہلی پانچ سال تک محدود کا بل منظور
اربوں ڈالر کے یہ قرضے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران دیے گئے تھے۔ بدھ پانچ جولائی کے روز پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاس کو بتایا گیا کہ چونکہ اسٹیٹ بینک نے یہ قرضے کمرشل بینکوں کے ذریعے دلوائے تھے، اس لیے ایسے قرض لینے والوں کے نام راز داری قانون کی وجہ سے ظاہر نہیں کیے جا سکتے۔
قرضوں کے حوالے سے سوالات
سینیٹ کے سابق ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے اسٹیٹ بینک کے گورنر سے کہا ہے کہ وہ ہمیں یہ بتائیں کہ یہ فنڈز کس طرح استعمال کیے گئے۔ ہمیں بتایا گیا کہ نجی بینکوں کے ذریعے یہ قرضے دیے گئے لیکن ان پر شرح سود حکومت ادا کرے گی۔‘‘
سلیم مانڈوی والا کے مطابق یہ قرضے دیے جانے کے مقاصد کے حوالے سے بھی بہت زیادہ ابہام ہے، ''گورنر کہتے ہیں کہ ری فنانسنگ کے لیے دیے گئے تھے جب کہ یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ یہ قرضے صنعتی پھیلاؤ کے لیے دیے گئے۔‘‘
کوئی مؤثر پالیسی نہیں
دنیا بھر میں قرضوں کی اسکیموں کے حوالے سے مؤثر پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جب کہ اس کے بعد نگران کمیٹیاں بھی تشکیل دی جاتی ہیں تا کہ اس عمل کی مؤثر نگرانی کی جا سکے۔ سلیم مانڈوی والا کا خیال ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان قرضوں کے دیے جانے سے پہلے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی، ''گورنر اسٹیٹ بینک نے عمران خان کو یہ آئیڈیا دیا اور عمران خان کو یہ آئیڈیا پسند آ گیا۔‘‘
پاکستان میں مردم شماری میں خامیوں پر ماہرین کی تنبیہ
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے ڈائریکٹر احمد چنائے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ان قرضوں کو دینے سے پہلے کوئی مؤثر پالیسی نہیں بنائی گئی تھی۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''تین بلین ڈالر کے قرضے دیے گئے لیکن ان کی نگرانی کے لیے کوئی کمیٹی تک نہ بنائی گئی اور نہ ہی اس بات کو ہی پیش نظر رکھا گیا کہ ملک میں کس شعبے یا انڈسٹری کی ضروریات زیادہ ہیں۔‘‘
قرضوں کا مصرف
خیال کیا جاتا ہے کہ جس وقت یہ قرضے دیے گئے، اس وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ تین ارب ڈالر کے قرضوں کے بعد ملکی برآمدات میں نو ارب ڈالر کا اضافہ ہو گا۔ لیکن کئی ناقدین کا خیال ہے کہ انہیں تو معاشی ترقی کے کوئی بھی آثار اتنی خطیر رقوم کے دیے جانے کے بعد بھی نظر نہ آئے۔
احمد چنائے کے مطابق اگر حقیقت میں تین ارب ڈالر ملکی صنعتوں میں لگ جاتے تو پاکستان میں مزید صنعتی ترقی بھی ہوتی اور جی ڈی پی کی شرح بھی بڑھتی، ''میرے خیال میں تو پھر شاید پورا معاشی منظر نامہ ہی بدل جاتا۔‘‘
معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہدہ وزارت بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ انہیں کورونا وائرس کی عالمی وبا سے لے کر اب تک تو پاکستان کی معاشی ترقی میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آئی۔ دوسری طرف معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ صنعتی ترقی تو بڑھنے کے بجائے کم ہو رہی ہے۔
پاکستانی پارلیمان اور عدلیہ کے مابین رسہ کشی، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
ڈاکٹر قیس اسلم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو نوازنا ہر حکومت کا فریضہ بن چکا ہے۔ جنرل ضیا سے لے کر آج تک تمام حکومتیں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ہی نوازتی رہی ہیں۔ لیکن کبھی اس سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ اس نے روزگار کے مواقع کتنے پیدا کیے، برآمدات میں کتنا اضافہ کیا اور حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں کتنی رقوم جمع کرائیں۔‘‘
ڈاکٹر قیس اسلم کے مطابق تین ارب ڈالر کی رقم پاکستان جیسی چھوٹی معیشت کے لیے بہت بڑی چیز ہے۔ ''اگر ہمارے حکمران عقل مند ہوتے، تو یہی تین ارب ڈالر توانائی کے ایسے منصوبوں پر لگاتے، جن کی بدولت گردشی قرضوں سے ہمیں چھٹکارا ملتا اور ہماری معیشت کی حالت بھی بہتر ہوتی۔‘‘
حکومت کا نقصان
معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ اگر حکومت تین ارب ڈالر کا قرضہ عام لوگوں کو مناسب شرح سود پر دیتی، تو قومی خزانے میں اربوں روپے جمع ہوتے۔ ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق جن لوگوں نے یہ قرضہ لیا اور اس کو احسن طریقے سے استعمال نہیں کیا، انہوں نے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے۔
بحران زدہ پاکستان اور پارلیمانی سربراہان: تنخواہیں اور زیادہ
انہوں نے کہا، ''اسٹیٹ بینک کو ایسے لوگوں کے نام چھپانا نہیں چاہییں۔ آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت اس طرح کی انفارمیشن کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ اگر عوام کے خون پسینے کی کمائی سے چند لوگوں کو نوازا گیا ہے، تو اس عمل کا باقاعدہ احتساب ہونا چاہیے۔‘‘
چھبیس کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا
فیصل آباد چیمبر آف کامرس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ یہ قرض 600 سے زیادہ افراد کو دیا گیا ہے۔ فیصل آباد چیمبرز سے وابستہ ایک سابق عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حقیقت یہ ہے کہ چھبیس کمپنیوں کے افراد کو ایسے قرضے دیے گئے، جن میں سے کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک صنعت کار نے تو 90 ارب روپے لیے۔ صنعت کاروں کی اکثریت کو قرضے فراہم نہیں کیے گئے اور ان کی قرضوں کی درخواستوں کو یکسر مسترد کر دیا گیا۔‘‘
آئی ایم ایف بورڈ ڈیل کی منظوری دے دے گا، شہباز شریف پرامید
چیمبر کے اس سابق عہدیدار کا دعویٰ تھا کہ جب ان مخصوص افراد کو یہ پتہ چلا کہ قرضوں پر سود نہیں ہے، تو انہوں نے بلا ضرورت بھی مشینیں منگوائیں، ''یوں بھی زر مبادلہ کے ذخائر کم ہوئے اور آج جو زر مبادلہ کی کمی کا بحران ہے، اس کی ایک وجہ ان قرضوں کی اسکیم بھی ہے۔‘‘
اس عہدیدار کا دعویٰ تھا کہ اگر کسی نے تین ملین ڈالر کی کوئی مشین کورونا کی وبا کے دوران خریدی تھی، تو آج وہی مشین چار ملین ڈالر کی ہو گئی ہے۔ ''یعنی اس شخص کو ایک ملین ڈالر کا فائدہ ہوا جب کہ تین ارب ڈالر کے بعد بھی اگر صنعتی ترقی نہیں ہوئی، تو ملک کا نقصان تو ہوا۔‘‘
کیا ایکشن ہو سکتا ہے؟
دنیا بھر کی جمہوریتوں میں اگر حکومتیں غلط فیصلے کرتی ہیں اور ان سے قومی خزانے کو نقصان ہوتا ہے، تو ان حکومتوں کا احتساب بھی ہوتا ہے۔ لیکن اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ماہر قانون شاہ خاور کا کہنا ہے کہ بظاہر اس معاملے میں نہیں لگتا کہ حکومت کے خلاف کوئی ایکشن لیا جا سکتا ہے۔
آئی ايم ايف کے ساتھ معاہدہ، بازار حصص ميں مثبت رجحان
شاہ خاور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''گزشتہ کچھ برسوں میں پاکستان کے قوانین میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، جن کی وجہ سے اگر کوئی صوبائی یا وفاقی کابینہ یا مشترکہ مفادات کی کونسل کوئی مشترکہ فیصلہ کرتی ہے، تو اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔‘‘