جرمن چانسلر کا بھارت کا دورہ: ایران کی فضائی حدود بند
31 مئی 2011اس پر جرمنی کے سفارتی حلقے میں غیض و غضب کی لہر دوڑ گئی۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل گزشتہ شب بھارت کے دورے پر روانہ ہوئی تھیں اور ان کی ملاقات آج منگل کو بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اور بھارتی صدر پرتبھا پاٹل سے طے تھی۔ میرکل کا سفر توقع سے زیادہ طویل ہوگیا کیونکہ ایران نے جرمن چانسلر کے طیارے کی ایران کی فضائی حدود سے پرواز میں رخنا ڈالتے ہوئے اسے وقتی طور پر بند کر دینے کا اعلان کر دیا۔ تہران کے اس اقدام پر برلن میں خاصی ہلچل مچ گئی۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے ایک بیان میں کہا ’ ایران کے اس رویے سے جرمنی کے بارےمیں عدم احترام کا اندازہ ہوتا ہے۔ جرمنی اس رویے کو کسی صورت قبول نہیں کرے گا‘۔
جرمن وزیر خارجہ نے برلن متعینہ ایرانی سفیر کو بلا کرکہ ان سے وضاحت طلب کی۔ ویسٹر ویلے نے ایرانی سفیر سے صاف الفاظ میں کہا کہ اس قسم کے اقدام بین الاقوامی کنونشن کی خلاف ورزی ہے اور اسے برداشت نہیں کیا جائے گا‘۔ دریں اثناء جرمن چانسلر کے طیارے کی نئی دہلی آمد میں تاخیر کی وجہ فوری طور سے سامنے نہیں آئی تاہم جرمن چانسلر اپنے چار وزراء اور دیگر مندوبین کے ساتھ ایک دوسرے جہاز سے بھارت پہنچیں اور اس طیارے کو کہیں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
نئی دہلی میں من موہن سنگھ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میرکل نے اس واقعے کی تفصیلات میں جانے سے پرہیز کیا تاہم انہوں نے بتایا کہ اُن کا طیارا دو گھنٹے تک ترکی کے فضائی حدود میں ہی رہا کیوں کہ اُسے ایران کی فضائی حدود سے گزرنے کی لیے اجازت نہیں مل رہی تھی۔ میرکل نے کہا ’ بہرحال مجھے بہت خوشی ہے کہ میں بخیریت بھارت پہنچ گئی ہوں۔ ہر چیز احسن طریقے سے انجام پا رہی ہے اور ہم بھارت جرمن مذاکرات کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہی سب سے اہم امر ہے‘۔
برلن سے جرمن ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق جرمن چانسلر کا طیارہ تہران اور برلن کے مابین سفارتی سطح پر ہونے والی بات چیت کے بعد ایران کے فضائی حدود میں داخل ہو سکا تھا۔ تاہم برلن کے سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایران نے ابتدائی طور پر چانسلر میرکل کے طیارے کو اپنی فضاسی حدود سے گزرنے کی اجازت دے دی تھی تاہم بعد میں اُس نے یہ رکاوٹ کیوں ڈالی، یہ امر ہنوز غیر واضح ہے۔
دریں اثناء آج منگل کی شام برلن میں ایرانی سفیر اور جرمنی کی وزارت خارجہ کے ایک اسٹیٹ سکریٹری کی ملاقات متوقع ہے۔
یاد رہے کہ جرمنی کا شمار اُن چھ ممالک میں ہوتا ہے، جو ایران پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اپنے متنازعہ ایٹمی پروگرام اور حساس جوہری سرگرمیوں کو بند کرے۔ مغربی طاقتوں کی طرف سے ایران کے جوہری پروگرام کو شکوک و شبے کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ برلن حکومت بارہا ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کی حمایت کرتی رہی ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: عدنان اسحاق