جریدہ ’دی اکانومسٹ‘ بھارتی سنسر شپ سے نالاں
24 مئی 2011بھارتی کسٹم افسران نے احکامات جاری کیے کہ اِس ہفت روزہ جریدے میں اُس خاکے پر سٹکرز چپکا دیے جائیں، جس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے کشمیر کا خطہ بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان تقسیم ہے۔
1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سے بھارت اور پاکستان دونوں پورے کشمیر پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ نئی دہلی حکومت نے تمام نقشوں پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور اُس کا ہمیشہ یہ اصرار رہا ہے کہ کسی بھی نقشے میں پورے کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھایا جانا چاہیے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے ’دی اکانومسٹ‘ کے مدیر اعلیٰ جان مکلیتھ ویٹ نے کہا: ’’بھارت کو ایک جمہوری ریاست تصور کیا جاتا ہے، جہاں اظہار رائے کی کھلی آزادی ہونی چاہیے۔ لیکن اس معاملے میں اس ملک کا طرزِ عمل پاکستان یا چین کے مقابلے میں زیادہ معاندانہ ہے۔ یہ سنسر شپ ہے۔ اور بھارت میں بہت سے با بصیرت اور ہوش مند لوگ اس نقطہء نظر کا اظہار کر رہے ہیں کہ جو کچھ کیا گیا ہے، اُس کی ضرورت نہیں تھی۔‘‘
بھارت اور پاکستان کے درمیان ’دنیا کی خطرناک ترین سرحد‘ دکھانے والا یہ نقشہ سرورق کے مضمون کے فوراً بعد شائع کیا گیا ہے۔ ’دی اکانومسٹ‘ کو ابھی بھی امید ہے کہ سٹکرز چپکانے کے بعد وہ اپنا تازہ ایڈیشن بھارت میں فروخت کر سکے گا۔
مکلیتھ ویٹ نے کہا: ’’یہ نقشہ غیر جانبدارانہ، درست اور منصفانہ ہے۔ ہم نے اِس میں ہر ملک کے دعوے دکھائے ہیں اور یہ حقیقت پسندانہ بھی ہے کیونکہ اس میں دکھایا گیا ہے کہ غیر سرکاری سرحد اصل میں کہاں کہاں ہے۔‘‘
اِس جریدے اور بھارتی حکام کے درمیان ماضی میں بھی کئی مرتبہ تنازعے کی سی صورت حال پیدا ہوتی رہی ہے۔ ابھی گزشتہ دسمبر میں ’دی اکانومسٹ‘ کے ایک ایڈیشن میں خطّے کے ایک نقشے کی اشاعت پر بھارت کے سنسر حکام نے اعتراضات کیے تھے۔
اِس جریدے کے پبلشرز کو پہلے سے ایسا لگ رہا تھا کہ اُن کے 21 مئی کے ایڈیشن کو بھارت میں سنسر شپ کے مرحلے سے گزرنا پڑ سکتا ہے، اس لیے اُنہوں نے مضمون کے اندر ہی اپنے قارئین کو اس حوالے سے پیشگی انتباہ کر دیا تھا۔
انگریزی زبان کا ہفت روزہ جریدہ ’دی اکانومسٹ‘ سن 1843ء سے برطانوی دارالحکومت لندن سے شائع ہو رہا ہے۔ 2009ء کے اعداد و شمار کے مطابق ہر ہفتے اِس کی 1.6 ملین کاپیاں شائع ہوتی ہیں اور یہ دُنیا کے 200 ممالک میں فروخت ہوتا ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک