جنوبی وزیرستان سے متعلق اہم حقائق
17 اکتوبر 2009پاکستانی فوج نے جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف زمینی آپریشن شروع کر دیا ہے۔ حکومت نے جون میں فوج کو اس آپریشن کے لئے کہا تھا، تاہم تب سے فضائی کارروائی اور گولہ باری ہی جاری تھی۔ یہ علاقہ پاکستانی طالبان کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے، جن کی سربراہی حکیم اللہ محسود کر رہا ہے۔
جنوبی وزیرستان پہاڑی علاقہ ہے جبکہ کہیں کہیں جنگلات بھی ہیں۔ تازہ اعدادوشمار کے مطابق جنوبی وزیرستان کی آبادی پانچ لاکھ ہے، جس میں سے بیشتر پشتون ہیں۔ انہیں مذہبی لحاظ سے قدامت پسند تصور کیا جاتا ہے۔ وہ انتہائی خود مختار ہیں اور بیرونی مداخلت کو پسند نہیں کرتے۔
پشتون عوام قبائل میں تقسیم ہیں۔ جنوبی وزیرستان کے مرکزی قبائل محسود اور وزیر ہیں۔ محسود قبیلہ طالبان کا سب سے بڑا حمایتی بھی ہے۔ پاکستانی طالبان کا گڑھ بھی جنوبی وزیرستان میں محسود قبیلے کے زیرانتظام علاقہ ہی ہے، جو وانا کے شمال مشرق سے جنوب میں رزمک تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغانستان کے ساتھ اس علاقے کی سرحد نہیں ملتی۔
اس علاقے میں دس ہزار طالبان فوج کے مدمقابل ہیں، جن میں سے ایک ہزار ازبک ہیں۔ ان میں عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے القاعدہ کے کچھ ارکان اور مغربی ملکوں سے آئے ہوئے انتہاسپند بھی ہیں۔ آپریشن میں حصہ لینے والے فوجیوں کی تعداد اٹھائیس ہزار بتائی جا رہی ہے۔
ان کارروائیوں کے دوران فوج کی جانب سے تین سمتوں سے حملے متوقع ہیں۔ زمینی حملے، جن میں دستوں کو فضائیہ کی معاونت حاصل ہے، جنگی ہیلی کاپٹرز، ٹینک اور توپخانہ۔
انتہاپسندوں کے پاس بھی مختلف اقسام کا اسلحہ ہے، جس میں رائفلز، مشین گنیں، ٹینک شکن ہتھیار، راکٹ اور مارٹر شامل ہیں۔ انہیں سڑکوں کے کنارے بم نصب کرنے کا بھی تجربہ ہے جبکہ وہ خودکش دھماکے بھی کرتے رہتے ہیں۔
پاکستانی فوج گزشتہ کچھ عرصے سے طالبان کو تنہا کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اس کی کوشش ہو گی کہ جنوبی وزیرستان میں کمانڈر مولوی نذیر کی سربراہی میں وزیر قبیلہ اور شمالی وزیرستان کے دیگر قبائل اس لڑائی سے دُور رہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: امجد علی