حفاظتی بندوں کا ٹوٹنا ۔۔عدالتی تحقیقات کا مطالبہ
6 اگست 2010سیلاب کے دنوں میں آبپاشی کے تعمیراتی سٹرکچر ، بیراجوں اور ہیڈ ورکس کو بچانے کیلئے نہروں میں شگاف ڈال کر دریائی پانی کی سطح کم کرنے کی روایت پرانی ہے لیکن اس سال جنوبی پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ حالیہ سیلاب کے دوران طبقہ اشرافیہ کو نقصانات سے بچانے کیلئے جان بوجھ کر نہروں میں ایسی جگہوں پر شگاف ڈالے گئے جس کی وجہ سے سیلابی پانی کا رخ غریب بستیوں کی طرف موڑ دیا گیا ۔
بستی شہیداں میں موجود محمد اشرف کہتے ہیں کہ دریائے چناب سے نکلنے والی ایک نہرمیں شگاف ڈالنے کے فیصلے کے خلاف مقامی لوگ مزاحمت کر رہے تھے کہ اچانک رات کے اندھیرے میں نہر توڑ دی گئی اور علاقے میں یہ تاثر پھیلا دیا گیا کہ پانی کی زیادتی کی وجہ سے یہ نہر ٹوٹ گئی ہے ۔
اسلم نامی ایک اور شہری کہتے ہیں کہ اگر اس حفاظتی بند کی بجائے ڈیرہ غازی خان کا حفاظتی بند توڑا جاتا تو پانی پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس دریا میں آ جاتا اور غریب بستیوں میں جانی اور مالی نقصانات نہ ہوتے۔
مقامی صحافی عمر دراز کا کہنا ہے کہ ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت اور ڈیرہ غازی خان کے سرداروں کی فصلوں کو بچانے کیلئے کوٹ ادو ، گجرات اور محمود کوٹ جیسے کئی قصبوں کی قربانی دی گئی ہے ۔
بعض ذرائع کے مطابق طبقہ اشرافیہ کے با اثر ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بستی شہیداں سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر موجود لال پیر پاور پلانٹ کو بچانے کیلئے معروف صنعت کار میاں محمد منشا کی طرف سے اس نہر کو نہ توڑنے کی درخواست بھی شرف قبولیت حاصل نہ کر سکی۔
محکمہ آبپاشی کے مقامی حکام ایسے الزامات کی تصدیق کرنے سے انکاری ہیں ۔ اسی محکمے کے ایک اعلیٰ افسر لطیف ابرار کہتے ہیں کہ سیلاب کے دنوں میں حفاظتی بند توڑنے کا فیصلہ ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی سوچ بچار کے بعد پانی کی سطح دیکھ کر کرتی ہے ۔ محکمہ آبپاشی کے ایک اور افسر کے مطابق بعض اوقات بڑے نقصان سے بچنے کیلئے مشکل فیصلے کرنا ہی پڑتے ہیں۔
ادھر پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے پنچاب کے صوبائی وزیر آبپاشی نے کہا کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے سیکرٹری آبپاشی کو اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے اور وہ جنوبی پنجاب کے دوروں کے دوران حفاظتی بند توڑنے جیسے فیصلے خود ہی کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق انہیں آبپاشی کا وزیر ہونے کے باوجود ایسے معاملات سے آگاہ نہیں رکھا جاتا ۔
بعض سیلاب زدگان صدر زرداری کو موردِ الزام ٹھراتے ہوئے اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ اعلیٰ سطحی دباؤ کی وجہ سے سندھ کو بچانے کیلئے جنوبی پنجاب کے علاقوں کو سیلابی پانی کی نظر کر دیا گیا ہے۔
کوٹ ادو کے ایک رہائشی حافظ محمد اختر نے چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حالیہ سیلابوں میں حفاظتی بندوں اور نہروں کے کناروں کے ٹوٹنے کے واقعات کا از خود نوٹس لیتے ہوئے سیلابی دنیا کے اس بد ترین سکینڈل کی تفصیلات قوم کے سامنے لائیں۔ ان کے مطابق حفاظتی بندوں کے توڑنے جیسے فیصلوں سے عوام کی بڑی تعداد متاثر ہوتی ہے۔ اس لئے اس ضمن میں مناسب رہنما اصول وضح کیے جانے چاہیں۔
سیلاب سے متاثرہ حبیب نامی ایک شخص نے دکھی لہجے میں بتایا کہ جب دریا اور نہریں معمول کے مطابق بہتے ہیں تو با اثر لوگ نہروں کے بند توڑ کر نہروں کا پانی چوری کر تے ہیں اور جب پانی زیادہ آ جاتا ہے تو اس کا رخ بھی غریبوں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق پانی سے وابستہ ان جرائم کی منصفانہ تحقیقات ہونی چاہئیں۔
تنویر شہزاد
کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ جنوبی پنجاب۔
ادارت: عابد حسین