سیلاب زدہ علاقوں میں لوٹ مار اور چوری کے واقعات
6 اگست 2010پاکستان کے بیشتر علاقے اس وقت ملکی تاریخ کے بدترین سیلابوں کی زد میں ہیں۔ گزشتہ ماہ کے آخری دنوں میں مون سون کی شدید بارشوں کے نتیجے میں سیلابی ریلوں نے جن انسانی المیوں کو جنم دیا، ان کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
ڈیڑھ ہزار سے زائد انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ لاکھوں افراد کے سروں سے ان کی چھتیں بھی چھن گئیں۔ کئی ہزار ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلوں کی تباہی اور بڑی تعداد میں مویشیوں کی ہلاکت نے لوگوں کو ان کے روزگار کے وسیلوں سے بھی محروم کر دیا۔ اس صورتحال پر کس رحم دل کی آنکھ اشک بار نہ ہوئی ہو گی۔ لیکن ان حالات میں بھی بہت سے مفاد پرست گروہوں کی صورت میں لوٹ مار میں مصروف پائے گئے۔
سیلاب اور بارشوں سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ میں ڈاکوؤں کے گروہ آفت زدہ لوگوں کا بچا کھچا سامان لوٹ کر کشتیوں میں بھر بھر کے لے جاتے دیکھے گئے۔
اس بارے میں نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے صوبائی ترجمان عدنان خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا: ’’جب نوشہرہ سے سیلابی پانی کا ریلا گزر رہا تھا تو متاثرہ شہری اپنے گھروں کی چھتوں پر کھڑے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکو ان کی آنکھوں کے سامنے ہی کشتیوں کے ذریعے ان کے گھروں سے سامان لوٹ کر لے جاتے رہے۔ ہم نے اس بارے میں نوشہرہ کی ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے کوئی رابطہ نہ ہونے پر پاکستانی فوج سے رابطہ کیا گیا کہ وہ وہاں امدادی کارروائیوں کے دوران اس طرح کے عناصر پر بھی نظر رکھے۔‘‘
جنوبی پنجاب کے پسماندہ ترین علاقوں میں انتظامیہ کی جانب سے متعدد بار خبردار کرنے کے باوجود ہزاروں افراد اپنے گھروں کی چھتوں پر صرف اس لئے محصور ہو گئے کہ انہیں بھی اپنے گھروں سے نکلنے کی صورت میں اپنے مال مویشیوں اور گھریلو سامان کی چوری کا خدشہ تھا۔
بہت پریشان کر دینے والی اس صورتحال میں، جب ہزاروں افراد بے رحم سیلابی ریلوں کی نذر ہو گئے ہوں، وہ کون لوگ ہوں گے جو لوٹ مار میں مصروف تھے اور ان کی ذہنی حالت کو کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر رضوان تاج نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ نفسیات کی زبان میں ایسے لوگوں کو Psychopath کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر رضوان تاج نے کہا: ’’یہ ایسے لوگ ہیں جو اس طرح کے واقعات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ کام وہی لوگ کرتے ہیں جو معاشرے میں برے ہوتے ہیں اور اکثر آفت زدہ علاقوں میں ایسا کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ ان کا یہ عمل دوسروں کو کس طرح اور کتنا متاثر کرے گا۔‘‘
قدرتی عوامل کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کو اکثر انسان قدرت ہی کا فیصلہ سمجھ کر برداشت تو کر لیتے ہیں لیکن ایسے المناک حالات میں انسانوں کے ہاتھوں انسانوں ہی کو پہنچنے والا دکھ زیادہ تر ناقابل فراموش ہی رہتا ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں