’سیلاب میں پختون روایات بھی بہہ گئیں‘
5 اگست 2010جب امدادی کارکن پاکستانی شہر نوشہرہ میں سیلاب زدگان میں واٹر کولرز، چٹائیاں اور دیگر ضروری چیزیں تقسیم کر رہے تھے، متاثرین کی ایک بہت بڑی تعداد کو خالی ہاتھ ہی واپس لوٹنا پڑا۔ اطلاعات کے مطابق خالی ہاتھ لوٹنے والوں میں بہت ساری خواتین اور بچّے شامل تھے۔ یہ امدادی سامان نوشہرہ میں قائم کھنڈر کیمپ میں پناہ لینے والے متاثرین میں تقسیم ہو رہا تھا۔
محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں آنے والے حالیہ سیلاب میں کم از کم پندرہ سو افراد ہلاک اور سینکڑوں دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔
کھنڈر نامی پناہ گزین کیمپ میں تقریباً چار ہزار بے گھر افراد کو رکھا گیا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں سیلاب کے باعث تیس لاکھ سے بھی زیادہ شہریوں کو ہجرت کرنا پڑی ہے۔ اس سیلاب کے نتیجے میں ہزاروں مکان بہہ گئے جبکہ متاثرہ علاقوں میں فصل بھی مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے۔ علاوہ ازیں درجنوں دیہات زیر آب آگئے ہیں۔
قبائلی روایات کے مطابق متاثرین کو امداد فراہم کرنے کے عمل اور مہمان نوازی کو بڑی اہمیت حاصل ہے لیکن حالیہ مصیبت سے ان روایات کو بھی شدید دھچکہ پہنچا ہے۔ ضروری امدادی سامان کی شدید قلت کے سبب کئی متاثرین ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے اور جھگڑنے بھی لگے ہیں، جو کہ قدیم قبائلی روایات کے برخلاف ہے۔
کھنڈر کیمپ میں مسرت خان نامی ایک پناہ گزین نے ایک خبر رساں ادارے کے ساتھ بات چیت میں سیلاب کے متاثرین کو درپیش مشکلات کی تفصیل کچھ یوں بتائی:’’ہم یہاں حکومت اور مختلف غیر سرکاری اداروں کی طرف سے دئے جانے والے امدادی سامان کو حاصل کرنے کے لئے ’بلیوں اور کتوں‘ کی طرح چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بھی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ہمیں خوراک مہیا نہیں ہے، پینے کے صاف پانی کی قلت کا سامنا ہے، ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
مسرت خان نے مزید بتایا کہ لوگ ایک کھنڈر کو چھوڑ کر دوسرے ’کھنڈر‘ میں آگئے ہیں۔ حالیہ سیلاب کو گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران پاکستان میں آنے والا سب سے خطرناک سیلاب قرار دیا جا رہا ہے۔
سیلاب زدگان نے کئی مقامات پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے خلاف مظاہرے بھی کئے۔ متاثرین کا مطالبہ ہے کہ حکومت ان کی مشکلات کا سنجیدہ نوٹس لیتے ہوئے مصیبت کی گھڑی میں انہیں راحت پہنچائے۔ بعض متاثرین نے شدید سیلاب کے موقع پر پاکستانی صدر آصف علی زرداری کے دورہء یورپ پر بھی کڑی نکتہ چینی کی۔
اُدھر پاکستان میں عالمی تنظیم برائے خوراک کے ایک ترجمان امجد جمال نے بتایا کہ صرف خیبر پختونخوا میں کم از کم اٹھارہ لاکھ افراد کو آئندہ دو تین ماہ تک خوراک کی امداد کی ضرورت پڑے گی۔ دریں اثناء مقامی حکام نے سیلاب سے متاثرہ تقریباً ایک لاکھ افراد کے کالرا کی بیماری کا شکار ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی/ خبر رساں ادارے
ادارت: عاطف توقیر