حکومتِ پاکستان آخر کب جاگے گی؟ تبصرہ
3 مارچ 2011ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار کائی کُسٹنر کے مطابق اب حکومت کو بالآخر جاگ جانا چاہیے اور بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی کے خلاف مزاحمت کرنی چاہئے ورنہ پاکستان کا بھی نقصان ہو گا اور مغربی دُنیا کا بھی۔
تبصرہ
’’ایٹمی ریاست پاتال میں‘‘ یا پھر ’’پاکستان تیزی سے نیچے گرتا ہوا‘‘، گزرے برسوں کے دوران قدرتی آفات، بدعنوانی اور انتہا پسندوں کی دہشت گردی کے ستائے ہوئے اِس ملک کے بارے میں ہنگامہ خیز شہ سُرخیوں کا انتخاب کافی آسان رہا اور ہر بار دُنیا سوچتی تھی کہ کوئی تو وقت آئے گا، جب پاکستان واقعی نیچے آ رہے گا۔ اب جا کر لیکن ہمیں یہ معلوم ہوا کہ یہ تو اِس سے بھی زیادہ گہرائی میں گر سکتا ہے۔ اگر اب بھی حکومت حرکت میں نہ آئی تو یوں سمجھیں کہ تباہی کی منزل زیادہ دور ہرگز نہیں ہے۔
چند ہفتوں کے اندر اندر ایسا دوسری مرتبہ ہوا ہے کہ پاکستان میں کسی سیاستدان کو اپنے نظریات کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں، اعتدال پسندانہ سیاسی نظریات کی وجہ سے۔ آخر اقلیتی امور کے وزیر کا مطالبہ ہی کیا تھا؟ وہ توہینِ رسالت کے قانون کی منسوخی کا بھی نہیں بلکہ اِس میں محض چند معمولی تبدیلیوں کا ہی مطالبہ کر رہے تھے۔ مثلاً پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کرنے والے کسی بھی شخص کو عمر قید یا موت تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ چنانچہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، آپ جا کر بہت آسانی سے اپنے کسی ناپسندیدہ ہمسائے، ملازمت کی جگہ پر اپنے کسی حریف یا پھر اپنے مالک مکان کے خلاف توہینِ رسالت کے الزام میں مقدمہ درج کروا سکتے ہیں۔ اُس شخص کو منظر سے ہٹانے کا باقی سارا کام عدالت کا ہے۔
اب ایک بات تو بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ پاکستان اسلامی انتہا پسندی کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہ بھی خاموشی سے ہرگز نہیں۔ چند ہفتے قبل ایسی ہی وجوہات کی بناء پر پنجاب کے گورنر کے اپنے ہی محافظ نے اُن کا سینہ گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا۔ بجائے اِس کے کہ اِس پر افسوس کا اظہار کیا جاتا، اُلٹا مظاہرے شروع ہو گئے اور وہ بھی حملہ آور کے حق میں۔ وکلاء نے ملزم پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔ طلبہ اور یونیورسٹی اساتذہ تک نے باقاعدہ مائیک پر آ کر یہ کہا کہ اُن کے بس میں ہوتا تو وہ بھی یہی کرتے اور یہ کہ توہین رسالت کا مرتکب ہر شخص فوری طور پر موت کی سزا کا مستحق ہے۔
جہاں گورنر پر گولی چلانے والے کو ایک ہیرو کا درجہ دیا جا رہا تھا، وہاں ملک کا اعلیٰ آزاد خیال طبقہ خاموش تماشائی بنا بیٹھا تھا، حکومت ہراساں تھی جبکہ انتہا پسند اور بھی دلیر ہو گئے تھے۔ یہ ہے، آج کا پاکستان۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان کو تو اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے کوشش کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی۔ پاکستانی معاشرہ نظریاتی طور پر خود بخود ہی اُسی طرف جا رہا ہے۔ ایک ایٹمی ریاست کے لیے یہ ہرگز اچھی خبر نہیں ہے۔ مغربی دُنیا کے لیے بھی نہیں، جسے افغانستان میں انتہا پسندوں کے خلاف جنگ کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر مغرب کی طرف جھکاؤ رکھنے والی موجودہ حکومت اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف نہیں اٹھے گی اور آج ہی نہیں اٹھے گی تو پھر یہ کام آخر کون کرے گا اور کب کرے گا؟ اگر اِس حکومت نے آئندہ بھی انتہا پسندوں کی جانب بزدلی کا رویہ اپنائے رکھا تو پھر اِس ایٹمی ریاست کے زوال کو کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔
تبصرہ: کائی کسٹنر / ترجمہ: امجد علی
ادارت: امتیاز احمد